یا وصل میں رکھیے مجھے یا اپنی ہوس میں
یا وصل میں رکھیے مجھے یا اپنی ہوس میں
جو چاہئے سو کیجیے ہوں آپ کے بس میں
یہ جائے ترحم ہے اگر سمجھے تو صیاد
میں اور پھنسوں اس طرح اس کنج قفس میں
آتی ہے نظر اس کی تجلی ہمیں زاہد
ہر چیز میں ہر سنگ میں ہر خار میں خس میں
ہر رات مچاتے پھریں ہیں شوق سے دھومیں
یہ مست مئے عشق ہیں کب خوف عسس میں
کیا پوچھتے ہو عمر کٹی کس طرح اپنی
جز درد نہ دیکھا کبھو اس تیس برس میں
ہر بات میں یہ جلدی ہے ہر نکتے میں اصرار
دنیا سے نرالی ہیں غرض تیری تو رسمیں
دشمن کو ترے گاڑوں میں اے جان جہاں بس
تو مجھ کو دلایا نہ کر اس طور کی قسمیں
انشاؔ ترے گر گوش اصم ہوں نہ تو آوے
آواز ترے یار کی ہر بانگ جرس میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |