یورپ کی زندگی
دن بھر ہے چرچا کام کا
شب اور شراب جاں فزا
دن بھر ہیں ساری سختیاں
شب اور حوران جناں
ایک ایک سانچے میں ڈھلی
ایک ایک پتلی قہر کی
غنچہ دہن آفت ادا
شوخی غضب غمزہ بلا
ظاہر میں سفاکی بھری
باطن میں اک جذب خفی
تیور سے روکھا پن عیاں
انداز میں مستی نہاں
پالو کبھی وحشی ہرن
خود صید پر ناوک فگن
کیوں کر نہ یاروں کے بھلا
لب سے یہی نکلے صدا
بالا ہو یا پستی غضب
اس طور کی ہستی غضب
اے زندگی اے زندگی
ہیں بار آور تجھ سے ہی
باغ تمنا کے شجر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |