یوسف حسن کا حسن آپ خریدار رہا
یوسف حسن کا حسن آپ خریدار رہا
پہلے بازار ازل مصر کا بازار رہا
بسمل ناز رہا کشتۂ رفتار رہا
زندگی بھر مجھے مرنے سے سروکار رہا
جرم نا کردہ عقوبت کا سزا وار رہا
شیخ سرشار سیہ مستیٔ پندار رہا
پردۂ چشم جو پاس ادب یار رہا
میں رہا سامنے تو بھی پس دیوار رہا
دل یہ شادئ جراحت سے ہوا بالیدہ
کہ ترا تیر یہاں تا لب سوفار رہا
گر کے نظروں سے تری پھر نہ زمیں سے اٹھا
میں سبک بھی جو ہوا تو بھی گراں بار رہا
آج ہی آج ہے فردائے قیامت موجود
دو گھڑی اور جو ہنگامۂ رفتار رہا
طور تو برق تجلی سے ہوا خاکستر
اور میں سوختۂ حسرت دیدار رہا
رحم اس سادہ دلی پر کہ مرا زخم جگر
غیر سے چارہ و درماں کا طلب گار رہا
میں وہ اک مجرم تعذیر طلب ہوں کہ سدا
بدلے دشمن کے عقوبت کا سزاوار رہا
بسکہ دل میں رہی اک کشمکش یاس و امید
درد جو دل میں رہا جان سے بیزار رہا
اب وہ فردا بھی نہیں روز کی تسکیں کے لیے
اب فقط حشر ہی پر وعدۂ دیدار رہا
پی بھی جا شیخ کہ ساقی کی عنایت ہے شراب
میں ترے بدلے قیامت میں گنہ گار رہا
خوش ہوں چپ رہنے سے ان کے دم پیغام وصال
کہ یہ انکار تو کچھ شامل اقرار رہا
سر پہ پھرتا ہی رہا اور نہ گرا مجھ پہ کبھی
آسماں بن کے ترا سایۂ دیوار رہا
گرچہ کیا کچھ تھے مگر آپ کو کچھ بھی نہ گنا
عشق برہم زن کاشانۂ پندار رہا
تم نے یوں گھر میں تو کیا کچھ نہ اٹھائے فتنے
اک قیامت کا اٹھانا سر بازار رہا
ہائے وہ چشم کہ دیکھے تجھے سرگرم ادا
وائے وہ دل کہ ترا محرم اسرار رہا
میں رہا بھی تو رہا خار کی صورت کہ سدا
تیری نظروں میں سبک دل پہ ترے یار رہا
چشم پر نشہ ساقی جو رہی عکس فگن
چور مستی سے ہر اک ساغر سرشار رہا
ہوں میں وہ جنس کہ ہوں رونق بازار کساد
ہوں وہ سودا کہ خریدار بھی بیزار رہا
کچھ خبر ہوتی تو میں اپنی خبر کیوں رکھتا
یہ بھی اک بے خبری تھی کہ خبردار رہا
تھک کے بیٹھے ہو در صومعہ پر کیا انورؔ
دو قدم اور کہ یہ خانۂ خمار رہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |