یوم استقلال

یوم استقلال (1954)
by سعادت حسن منٹو
319901یوم استقلال1954سعادت حسن منٹو

جب ہندوستان کے دو حصے ہوئے تو میں بمبئی میں تھا۔ ریڈیو پر قائد اعظم اور پنڈت نہرو کی تقریریں سنیں۔ اس کے بعد جب بٹوارہ ہو گیا تو میں نے وہ ہنگامہ بھی دیکھا جو بمبئی میں برپا ہوا۔ اس سے پہلے ہر روز اخباروں میں ہندو مسلم فسادات کی خبریں پڑھتا رہا تھا۔ کبھی پانچ ہندو مارے جاتے تھے کبھی پانچ مسلمان۔ بہرحال قتل و خون کا توازن اوسطاً برابر ہی رہتا تھا۔

اس سلسلے میں ایک لطیفہ بھی سن لیجئے۔ اخبار والا ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ صبح باورچی خانے کی کھڑکی سے اندر پھینک جایا کرتا تھا۔ ایک دن۔۔۔ (اور فسادات کا دن تھا) اخبار والا آیا اور اس نے دروازے پر دستک دی۔ میں بہت حیران ہوا۔ اٹھ کر باہر گیا تو دیکھا کہ کوئی نیا آدمی ہے، میں نے اس سے پوچھا، ’’وہ اخبار والا کہاں ہے؟ جو یہاں آیا کرتا ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا، ’’صاحب وہ مر گیا ہے۔۔۔ کل کماٹی پورے میں اس کے چھری گھو نپ دی گئی۔۔۔ لیکن مرنے سے پہلے وہ مجھ سے کہہ گیا کہ فلاں فلاں صاحب کو اخبار پہنچا دیا کرو اور ان سے پیسے بھی وصول کر لینا۔‘‘

اس وقت دل پر جو گزری، اس کے بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ اس کے دوسرے روز میں نے اپنے مکان سے ملحقہ سڑک پر جس کا نام کلیئر روڈ ہے، پٹرول پمپ کے پاس ایک ہندو برف فروش کی لاش دیکھی۔ اس کی برف کی ہتھ گاڑی اس کی لاش کے پاس کھڑی تھی۔ برف کی سلوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔ اس کے خون کے عین اوپر، خون جم گیا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ’’جیلی‘‘ کا ایک تودہ پڑا ہے۔ وہ دن بھی کچھ عجیب تھے۔ ہنگامے ہی ہنگامے تھے اور ان ہنگاموں کی کوکھ سے دو ملکوں کو جنم لینا تھا۔ آزاد ہندوستان اور آزاد پاکستان کو ایک افراتفری مچی تھی۔ سیکڑوں صاحب استطاعت مسلمان ہوائی جہازوں کے ذریعے سے اڑ کر کراچی جا رہے تھے کہ وہاں نوزائیدہ اسلامی مملکت کا جشن دیکھیں۔ باقی ہزاروں وہیں دبکے ہوئے تھے کہ انہیں ڈر تھا کہ کوئی آفت نہ آ جائے۔

اگست کی چودہ آئی اور بمبئی جو یوں بھی عروس البلاد کہلاتی ہے، نئی نویلی دلہن کی طرح سج گئی۔ روشنیوں کا ایک سیلاب تھا جو چودہ اگست کی رات کو بمبئی شہر میں بہہ گیا تھا۔ رنگ رنگ کی روشنیاں، میرا خیال ہے اتنی بجلی اس شہر نے کبھی اپنی زندگی میں خرچ نہیں کی ہوگی۔ بی ای ایس ٹی (بمبے الیکٹرک سپلائی اینڈ ٹراموے کمپنی) نے ایک ٹریم کار خاص اس تقریب کے لئے چاروں طرف بجلی کے قمقموں سے مزین کی ہوئی تھی۔ کچھ اس طور پر کہ کانگرس کے ترنگے جھنڈے بن گئے تھے۔ یہ ساری رات شہر میں گھوما کی۔ بڑی بڑی بلڈنگیں بھی روشنیوں سے آراستہ تھیں، انگریزی دکانوں نے خاص اہتمام کر رکھا تھا، وائٹ ویزا اور ایوان فریزز، کی سج دھج قابل دید تھی۔

اب آپ بھنڈی بازار کی سنیئے، یہ بمبے کا مشہور بازار ہے جو بمبئے کی زبان میں میاں بھائیوں یعنی مسلمانوں کا علاقہ ہے۔ اس میں بے شمار ہوٹل اور ریسٹوران ہیں۔ کسی کا نام بسم اللہ اور کسی کا نام سبحان اللہ۔ سارا قرآن اس بازار میں ختم ہو گیا ہے۔ لیکن ’’اعوذ باللہ‘‘ نام کا کوئی ریسٹوران یا ہوٹل یہاں موجود نہیں۔ یہ بازار بمبئی کا پاکستان تھا۔ ہندو اپنے ہندوستان کی آزادی کی خوشیاں منا رہے تھے اور مسلمان اپنے آزاد پاکستان کی اور میں محو حیرت تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ بھنڈی بازار میں جہاں ہندوؤں کی دکانیں تھیں ان پر ترنگے لہرا رہے تھے۔ باقی جہاں دیکھو مسلم لیگ کے اسلامی جھنڈے تھے۔ میں صبح بھنڈی بازار میں گیا تو میں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ سارا بازار سبز جھنڈیوں سے اٹا پڑا تھا۔ ایک ریسٹوران کے باہر قائد اعظم کی پینٹنگ (جو غالباً کسی اناڑی نے بنائی تھی) شوخ رنگوں میں لٹک رہی تھی اور دو برقی پنکھوں کا رخ اس کی طرف تھا۔

بہرحال یہ منظر مجھے کبھی نہ بھولے گا۔ مسلمان بہت خوش تھے کہ انہیں پاکستان مل گیا ہے۔ پاکستان کہاں ہے؟ کیا ہے؟ یہ ان کو قطعاً معلوم نہ تھا۔ بس وہ خوش تھے۔ اس لئے کہ ان کو بہت دیر کے بعد خوشی کا ایک موقعہ ملا تھا۔ رامپوری دادا ریسٹورانوں میں کئی کئی کوپ چائے کے پئے جا رہے تھے اور پاسنگ شو سگریٹ بھی اور پاکستان بننے کی خوشی منا رہے تھے۔ کالا کانڈی اور سینکی کی سوپاری کے پان دھڑا دھڑ آ رہے تھے اور باہر والے کی انگلیوں پر چونا بھی۔ میں محو حیرت تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے، لیکن سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ چودہ اگست کو بمبئی میں کوئی خون نہ ہوا۔ لوگ آزادی حاصل کرنے کی خوشی میں مگن تھے۔ یہ آزادی کیا تھی، کیونکر حاصل ہوئی اور آزاد ہو کر ان کی زندگی میں کیا تبدیلی ہوگی، اس کے متعلق کوئی بھی نہیں سوچتا تھا۔

ایک طرف ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے گونجتے تھے، دوسری طرف ’’ہندوستان زندہ باد‘‘ کے۔ اب چند لطیفے پاکستان کے متعلق سنیئے جو کہ ہماری نوزائیدہ اسلامی مملکت ہے۔ پچھلے برس یوم استقلال پر ایک صاحب سوکھا ہوا درخت کاٹ کر گھر لے جانے کی کوشش فرما رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا، ’’یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ یہ درخت کاٹنے کا آپ کو کوئی حق نہیں۔‘‘ آپ نے فرمایا، ’’یہ پاکستان ہے، یہ مال ہمارا ہے۔‘‘ میں خاموش ہو گیا۔

ہمارا محلہ کسی زمانے میں، اس زمانے میں جب بٹوارہ نہیں ہوا تھا، بڑی خوبصورت جگہ تھی۔ اب یہ حال ہے کہ وہ گول جگہ جہاں کسی زمانے میں گھاس کے تختے تھے بالکل ویران ہے۔ وہاں ننگے بچے دن رات گالیاں بکتے اور واہیات کھیل کھیلتے رہتے ہیں۔ میری ایک بچی کی بڑی گیند غائب ہو گئی۔ میں نے سوچا کہیں گھر میں ہوگی، لیکن چوتھے روز چند بچوں کو اس سے کھیلتے دیکھا۔ جب ان سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا، ’’یہ ہماری ہے۔ ایک روپے چار آنے میں خریدی تھی۔‘‘ لطیفہ یہ ہے کہ اس گیند کی قیمت چار روپے پندرہ آنے تھی۔ پاکستان میں لڑائی نہیں ہو سکتی۔ اس لئے میں نے اس سے گریز کیا اور اپنی بچی کی گیند انہی کے پاس رہنے دی کہ یہ ان کا حق تھا۔

اسی جگہ کا ایک اور ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ایک صاحب باہر لگے فرش پر سے اینٹیں اکھاڑ رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا، ’’بھائی ایسا نہ کرو۔ یہ بہت زیادتی ہے۔‘‘ آپ نے ارشاد کیا، ’’یہ پاکستان ہے۔ تم کون ہو۔ مجھے روکنے والے۔‘‘ میں خاموش ہو گیا۔

میں نے ایک ریڈیو مرمت کرنے والے کو اپنا ریڈیو مرمت کے لئے دیا۔ حافظہ کمزور ہے بھول گیا کہ اس کے یہاں جانا ہے۔ ایک مہینے کے بعد یاد آیا۔ جب اس کے پاس گیا تو اس نے کہا، ’’تم اتنے دن نہیں آئے۔ میں نے تمہارا ریڈیو سیٹ بیچ دیا ہے اور اپنی اجرت وصول کر لی ہے۔‘‘

پچھلے سے پچھلے سال یوم استقلال سے ایک دن پہلے مجھے نوٹس ملا کہ تم غیر ضروری آدمی ہو۔ بتاؤ کہ تمہیں کیوں نہ تمہارے مقبوضہ مکان سے بے دخل کیا جائے۔ اگر میں غیر ضروری آدمی ہوں تو حکومت کو بھی یہ استحقاق حاصل ہے کہ وہ مجھے پلیگ کا چوہا قرار دے کر پکڑ لے اور تلف کر دے، لیکن میں ابھی تک بچا ہوا ہوں۔ آخر میں ایک بہت بڑا لطیفہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جب قیام پاکستان کے عین بعد میں کراچی آیا تو وہاں ایک ہلڑ برپا تھا۔ میں نے چاہا کہ فوراً لاہور کا رخ کروں۔ چنانچہ میں ریلوے اسٹیشن گیا اور بکنگ کلرک سے کہا کہ مجھے ایک ٹکٹ فرسٹ کلاس کا لاہور کے لئے چاہیئے۔ اس نے جواب دیا، ’’یہ ٹکٹ آپ کو نہیں مل سکتا۔ اس لئے کہ سب سیٹیں بک ہیں۔‘‘

میں بمبئی کے ماحول کا عادی تھا۔ جہاں ہر چیز بلیک مارکیٹ میں مل سکتی ہے۔ میں نے اس سے کہا، ’’بھئی تم کچھ روپے زائد لے لو۔‘‘ اس نے بڑی سنجیدگی اور بڑے ملامت بھرے لہجے میں مجھ سے کہا، ’’یہ پاکستان ہے۔۔۔ میں اس سے پہلے ایسا کام کرتا رہا ہوں مگر اب نہیں کر سکتا۔ سیٹیں سب بک ہیں۔ آپ کو ٹکٹ کسی بھی قیمت پر کبھی بھی نہیں مل سکتا۔‘‘ اور مجھے ٹکٹ کسی قیمت پر بھی نہ ملا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.