یوں بزمِ گل رخاں میں ہے اس دل کو اضطراب
یوں بزمِ گل رخاں میں ہے اس دل کو اضطراب
جیسے بہار میں ہو عنادل کو اضطراب
نیرنگِ حسن و عشق کے کیا کیا ظہور ہیں
بسمل کو اضطراب ہے، قاتل کو اضطراب
آ جائے ہم نشیں وہ پری وش تو کیا نہ ہو
دیوانہ وار ناصحِ عاقل کو اضطراب
سیماب وار سارے بدن کو ہے یاں تپش
تسکین ہو سکے جو ہو اک دل کو اضطراب
وہ با ادب شہید ہوں میرا جو نام لے
قاتل، تو پھر نہ ہو کسی بسمل کو اضطراب
افسوس بادِ آہ سے ہل بھی نہ جائے اور
یوں ہو ہوا سے پردۂ محمل کو اضطراب
میں جاں بہ لب ہوں اور خبرِِ وصل جاں طلب
کیا کیا نہیں دہندہ و سائل کو اضطراب
لکھا ہے خط میں حال دلِ بے قرار کا
ہو گا ضرور شیفتہ حامل کو اضطراب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |