یوں تو دنیا میں ہر اک کام کے استاد ہیں شیخ
یوں تو دنیا میں ہر اک کام کے استاد ہیں شیخ
پر جو کچھ آپ میں فن ہیں وہ کسے یاد ہیں شیخ
سب ہی بندے تو خدا کے ہیں پر اتنا ہے فرق
تو گرفتار تعین ہے ہم آزاد ہیں شیخ
ہم تو مر جائیں جو اک دم یہ کریں صوم و صلٰوۃ
کیوں کہ جیتے ہیں وہ جو آپ کے مقتاد ہیں شیخ
دختر رز تو ہے بیٹی سی ترے اوپر حرام
رند اس رشتہ سے سارے ترے داماد ہیں شیخ
تھوڑی سی بات میں قائمؔ کی تو ہوتا ہے خفا
کچھ حرمزدگئیں اپنی بھی تجھے یاد ہیں شیخ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |