یوں تو ملنے کو اک زمانہ ملا

یوں تو ملنے کو اک زمانہ ملا
by صفی اورنگ آبادی

یوں تو ملنے کو اک زمانہ ملا
نہ ملا ہاں وہ بے وفا نہ ملا

آشنائی میں کچھ مزا نہ ملا
آشنا درد آشنا نہ ملا

جب ملے وہ کھچے تنے ہی ملے
لطف ملنے کا اک ذرا نہ ملا

ہم نوا سب خزاں کے آتے ہی
ایسے پتہ ہوئے پتا نہ ملا

کھو کے دل کو ہم اس قدر خوش ہیں
جیسے قارون کا خزانہ ملا

شاد کیا ہوں حصول جنت پر
کہ رپئے میں سے ایک آنا ملا

عاشقی کیا ہے سچ جو پوچھو تو
ہم کو مرنے کا اک بہانہ ملا

زندگانی تھی یا پریشانی
سب کیا اور کچھ مزا نہ ملا

روئیے اس کی بد نصیبی پر
ڈھونڈھنے پر جسے خدا نہ ملا

مجھ سے ملنے میں کیا برائی ہے
آپ کے دل کا مدعا نہ ملا

مل گیا دل جو ہم سے ملنا تھا
آنکھ اب ہم سے تو ملا نہ ملا

کھچ کے ملنا بھی کوئی ملنا ہے
ایک ہے وہ جو یوں ملا نہ ملا

پھر سمائی صفیؔ سے ملنے کی
کیوں تمہیں کوئی دوسرا نہ ملا

قدر کرتا ہوں اپنی آپ صفیؔ
واہ مجھ کو بھی کیا زمانہ ملا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse