یوں جو ڈھونڈو تو یہاں شہر میں عنقا نکلے
یوں جو ڈھونڈو تو یہاں شہر میں عنقا نکلے
چاہنے والا جو چاہو تو نا اصلا نکلے
جی میں ہے چیر کے سینہ میں نکالوں دل کو
تا کسی ڈھب سے تو پہلو کا یہ کانٹا نکلے
مرض عشق یہ مہلک ہے کہ اس کے ڈر سے
چرخ چارم یہ جو ڈھونڈو تو مسیحا نکلے
ہے یقیں گور پہ گر میری تو آ جاوے کبھی
دید کو تیری مرا قبر سے مردا نکلے
جاں کنی میں ہے تڑپتا دل بیتاب سرورؔ
میرے عیسیٰ سے کہو یہاں بھی کبھی آ نکلے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |