یوں دیکھ مرے دیدۂ پر آب کی گردش

یوں دیکھ مرے دیدۂ پر آب کی گردش
by مرزا محمد رفیع سودا

یوں دیکھ مرے دیدۂ پر آب کی گردش
دریا میں ہو جس طرح سے گرداب کی گردش

مرتا ہوں ترے واسطے روتا ہوں زبس یار
ہے سیل مری چشم میں گرداب کی گردش

پھر جاتی ہیں اس طرح سے اک پل میں وہ انکھیاں
جوں بزم میں ہو جام مئے ناب کی گردش

ازبسکہ ہے آنکھوں میں خمار اس گھڑی ساقی
مے مانگے ہے تجھ سے جو ہر احباب کی گردش

گو خاک ہوا تو بھی پھرا بن کے بگولا
ہو کر نہ گئی عاشق بیتاب کی گردش

جنس خرد و صبر بن اس دل کو ہو کیا چین
مفلس کو بری ہوتی ہے اسباب کی گردش

دل زلف و رخ یار میں سوداؔ نہ پھرے کیوں
خوش آئے ہے اس کو شب مہتاب کی گردش

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse