یوں غیر کچھ کہیں تو بلا کو بری لگے

یوں غیر کچھ کہیں تو بلا کو بری لگے
by میر حسن دہلوی

یوں غیر کچھ کہیں تو بلا کو بری لگے
تو کچھ نہ کہہ کہ ہم غربا کو بری لگے

تنگی کرے نہ حوصلہ اپنا کہیں بس اب
اتنی جفا نہ کر کہ وفا کو بری لگے

تجھ بن یہ زیست اپنی ہمیں یوں ہے جس طرح
قید حیات اہل فنا کو بری لگے

ہوں خاک تیرے کوچہ کی ہم اور اپنی گرد
تیری گلی سے آہ صبا کو بری لگے

ہم تو سہیں گے وہ بھی پہ لازم نہیں تجھے
اس ناز کی جفا جو ادا کو بری لگے

ہے بے حیائی حد سے جو گرمی زیادہ ہو
شوخی بہت تو مرد و نسا کو بری لگے

چوں آئینہ دل اپنا کدورت سے صاف رکھ
گرد ملال اہل صفا کو بری لگے

ہر دم جواب صاف مروت سے ہے بعید
وہ بات تو نہ کر کہ حیا کو بری لگے

اس بت کی بندگی سے نہ آزاد ہو حسنؔ
یہ بات بھی کہیں نہ خدا کو بری لگے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse