یوں گھر سے محبت کے کیا بھاگ چلے جانا
یوں گھر سے محبت کے کیا بھاگ چلے جانا
کچھ اس میں سمجھتا ہے دے آگ چلے جانا
تا شہر عدم ہم کو مشکل نظر آتا ہے
آلائش ہستی سے بے لاگ چلے جانا
کوچے سے ترے گاہے گھر شب کو جو آتا ہوں
پھر صبح ہوئے سوتے اٹھ جاگ چلے جانا
اس زلف کے افعی نے مارا ہے جسے اس کے
اشک آنکھ سے اور منہ سے ہیں جھاگ چلے جانا
جاتے تو ہو مے خانے مسجد میں بھی یک ساعت
واعظ کا محب سنتے کھڑاگ چلے جانا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |