یوں ہی رنجش ہو اور گلا بھی یوں ہی
یوں ہی رنجش ہو اور گلا بھی یوں ہی
ہو جے ہر بات پر خفا بھی یوں ہی
کچھ نہ ہم کو ہی بھا گیا یہ طور
واقعی یہ کہ ہے مزا بھی یوں ہی
صید کنجشک سے نہ ہاتھ اٹھا
آ کے پھنس جائے ہے ہما بھی یوں ہی
جوں اجاڑا تو گھر مرا اے عشق
خانہ ویران ہو ترا بھی یوں ہی
کیوں نہ روؤں میں دیکھ خندۂ گل
کہ ہنسے تھا وہ بے وفا بھی یوں ہی
اب تلک میری زیست نے کی وفا
بس میں دیکھی تری جفا بھی یوں ہی
مس دل کو دیا کر اپنے گداز
ہاتھ چڑھ جا ہے کیمیا بھی یوں ہی
یہ کہاں اور وہ گل کدھر قائمؔ
اک ہوا باندھے ہے صبا بھی یوں ہی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |