یک بیک جاتا رہا دلبر جو گھر آیا ہوا
یک بیک جاتا رہا دلبر جو گھر آیا ہوا
دوڑا دوڑا میں پھرا گلیوں میں گھبرایا ہوا
جان کیا جلاد کی لیوے دوبارا حکم قتل
منہ سے اس ظالم نے جو یکبار فرمایا ہوا
ہجر میں اس گل کے یہ صورت ہماری بن گئی
رنگ بھی ہے زرد اور چہرہ بھی مرجھایا ہوا
خانۂ دل سے کریں غم یار کا کس طرح دور
در سے اٹھتا ہے محصل کوئی بٹھلایا ہوا
کیا غضب ٹوٹے ہے دیکھیں عاشقوں کی جان پر
آج کچھ غصہ میں ہے بیٹھا وہ جھنجھلایا ہوا
یوں کیا برباد اس گل نے دل پژمردہ کو
پھینک دے ہے پھول جیسے کوئی کملایا ہوا
منتظرؔ کا جی جلا دے کیوں نہ ہر اک بات میں
ہے وہ ظالم شعلہ خو غیروں کا بھڑکایا ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |