یہی ہے ان کی نزاکت تو حال کیا ہوگا

یہی ہے ان کی نزاکت تو حال کیا ہوگا
by ریاض خیرآبادی

یہی ہے ان کی نزاکت تو حال کیا ہوگا
مجھے یہ ڈر ہے کہ وقت وصال کیا ہوگا

کسی کا سبزۂ تربت نہ ہو سکا پامال
خرام ناز سے دل پائمال کیا ہوگا

لحد پر آنے لگا کیوں پس فنا کوئی
مٹے ہوؤں کا کسی کو خیال کیا ہوگا

وہ سن ہی کیا ہے سمجھ ہو جو ایسی باتوں کی
وہ پوچھتے ہیں کہ روز وصال کیا ہوگا

نہ دل رہا نہ طبیعت رہی وہ پہلی سی
کسی کی بات کا ہم کو ملال کیا ہوگا

کنار شوق میں کیوں آئنے کی خواہش ہے
وہ بات ہی نہیں چہرہ نڈھال کیا ہوگا

اجل خدا کے لئے رحم کر حسینوں پر
ملا کے خاک میں حسن و جمال کیا ہوگا

مری خوشی کی انہیں کس لئے خوشی ہوگی
مرے ملال کا ان کو ملال کیا ہوگا

بتائیں کیا تمہیں کیوں کر گلے لگائیں گے
بتائیں کیا تمہیں روز وصال کیا ہوگا

شراب پینے کی عادت ہے مجھ کو چلو سے
مجھے ملا بھی تو جام سفال کیا ہوگا

ریاضؔ عمر تو گزری سیاہ کاری میں
خبر نہیں کہ ہمارا مآل کیا ہوگا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse