یہ باؤ کیا پھری کہ تری لٹ پلٹ گئی
یہ باؤ کیا پھری کہ تری لٹ پلٹ گئی
ناگن کی بھانت ڈس کے مرا دل الٹ گئی
بیکل ہوا ہوں اب تو تری زلف میں سجن
شب ہے دراز نیند ہماری اچٹ گئی
نادان تو نیں غیر کوں کیوں درمیاں دیا
الفت تری کی ڈور اسی مانجھے سیں کٹ گئی
مجھ باؤلے کا شور اٹھا دیکھ کر کے فوج
بادل کی بھانت ڈر سیں رقیباں کی پھٹ گئی
توڑی پریت ہم سیں پیارے نے آبروؔ
لاگی تو تھی یہ بیل پہ آخر اوکھٹ گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |