یہ بلا میرے سر چڑھی ہی نہیں

یہ بلا میرے سر چڑھی ہی نہیں
by ریاض خیرآبادی

یہ بلا میرے سر چڑھی ہی نہیں
میں نے کچے گھڑے کی پی ہی نہیں

آگ ایسی کبھی لگی ہی نہیں
کہ لگی دل کی پھر بجھی ہی نہیں

پی بھی یوں جیسے میں نے پی ہی نہیں
منہ سے میرے کبھی لگی ہی نہیں

دل نہ جب تک ہوا شریک حنا
مہندی ان کی کبھی پسی ہی نہیں

شکن زلف حلقۂ گیسو
بیڑیاں بھی ہیں ہتھکڑی ہی نہیں

کون لیتا بلائیں پیکاں کی
آرزو کوئی دل میں تھی ہی نہیں

کس قدر ہوں بنا ہوا میں بھی
جیسے میں نے شراب پی ہی نہیں

دل میں کیا آئے کیا چلے دل سے
تم نے چٹکی تو کوئی لی ہی نہیں

صبح کا جھٹپٹا تھا شام نہ تھی
وصل کی رات رات تھی ہی نہیں

کیوں سنے شیخ قلقل مینا
اس نے ایسی کبھی سنی ہی نہیں

آئے آنے کو فصل گل سو بار
میرے دل کی کلی کھلی ہی نہیں

ہائے سبزے میں وہ سیہ بوتل
کبھی ایسی گھٹا اٹھی ہی نہیں

لاگ بھی دل سے ہے لگاؤ کے ساتھ
دشمنی بھی ہے دوستی ہی نہیں

منہ لگانا مرا اک آفت تھا
خم میں وہ چیز جیسے تھی ہی نہیں

بزم آرائے حشر کے صدقے
محفل ایسی کبھی جمی ہی نہیں

کچھ مزے میں ہم آ گئے ایسے
توبہ پینے سے ہم نے کی ہی نہیں

کوئی نا خوش ریاضؔ سے کیوں ہو
اس روش کا وہ آدمی ہی نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse