یہ بھی کوئی وضع آنے کی ہے جو آتے ہو تم
یہ بھی کوئی وضع آنے کی ہے جو آتے ہو تم
ایک دم آئے نہیں گزرا کہ پھر جاتے ہو تم
دور سے یوں تو کوئی جھمکی دکھا جاتے ہو تم
پر جو چاہوں یہ کہ پاس آؤ کہاں آتے ہو تم
کہیے مجھ سے تو بھلا اتنا کہ کچھ میں بھی سنوں
بندہ پرور کس کے ہاں تشریف فرماتے ہو تم
اس پری صورت بلا انگیز کو دیکھا نہیں
ناصحو معذور ہو گر مجھ کو سمجھاتے ہو تم
دیکھیے خرمن پہ یہ برق بلا کس کے پڑے
بے طرح کچھ تیوری بدلے چلے آتے ہو تم
جو کوئی بندہ ہو اپنا اس سے پھر کیا ہے حجاب
میں تو اس لائق نہیں جو مجھ سے شرماتے ہو تم
آج یہ گو اور یہ میداں انہیں کہہ دیجئے
دیکھ لوں جن کے بھروسے مجھ کو دھمکاتے ہو تم
پھر نہ آویں گے کبھی ایسی ہی گر آزردہ ہو
بس چلے ہم خوش رہو کاہے کو جھنجلاتے ہو تم
حالت بیدارؔ اب کیا کیجئے آپ آگے بیاں
وقت ہے اب بھی اگر تشریف فرماتے ہو تم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |