یہ تجھ سے آشنا دنیا سے بیگانے کہاں جاتے

یہ تجھ سے آشنا دنیا سے بیگانے کہاں جاتے
by مخمور دہلوی
323875یہ تجھ سے آشنا دنیا سے بیگانے کہاں جاتےمخمور دہلوی

یہ تجھ سے آشنا دنیا سے بیگانے کہاں جاتے
ترے کوچے سے اٹھتے بھی تو دیوانے کہاں جاتے

قفس میں بھی مجھے صیاد کے ہاتھوں سے ملتے ہیں
مری تقدیر کے لکھے ہوئے دانے کہاں جاتے

نہ چھوڑا ضبط نے دامن نہیں تو تیرے سودائی
ہجوم غم سے گھبرا کر خدا جانے کہاں جاتے

میں اپنے آنسوؤں کو کیسے دامن میں چھپا لیتا
جو پلکوں تک چلے آئے وہ افسانے کہاں جاتے

تمہارے نام سے منسوب ہو جاتے ہیں دیوانے
یہ اپنے ہوش میں ہوتے تو پہچانے کہاں جاتے

اگر کوئی حریم ناز کے پردے اٹھا دیتا
تو پھر کعبہ کہاں رہتا صنم خانے کہاں جاتے

نہیں تھا مستحق مخمورؔ رندوں کے سوا کوئی
نہ ہوتے ہم تو پھر لبریز پیمانے کہاں جاتے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.