یہ تجھ سے آشنا دنیا سے بیگانے کہاں جاتے
یہ تجھ سے آشنا دنیا سے بیگانے کہاں جاتے
ترے کوچے سے اٹھتے بھی تو دیوانے کہاں جاتے
قفس میں بھی مجھے صیاد کے ہاتھوں سے ملتے ہیں
مری تقدیر کے لکھے ہوئے دانے کہاں جاتے
نہ چھوڑا ضبط نے دامن نہیں تو تیرے سودائی
ہجوم غم سے گھبرا کر خدا جانے کہاں جاتے
میں اپنے آنسوؤں کو کیسے دامن میں چھپا لیتا
جو پلکوں تک چلے آئے وہ افسانے کہاں جاتے
تمہارے نام سے منسوب ہو جاتے ہیں دیوانے
یہ اپنے ہوش میں ہوتے تو پہچانے کہاں جاتے
اگر کوئی حریم ناز کے پردے اٹھا دیتا
تو پھر کعبہ کہاں رہتا صنم خانے کہاں جاتے
نہیں تھا مستحق مخمورؔ رندوں کے سوا کوئی
نہ ہوتے ہم تو پھر لبریز پیمانے کہاں جاتے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |