یہ حسن ہے آہ یا قیامت کہ اک بھبھوکا بھبھک رہا ہے

یہ حسن ہے آہ یا قیامت کہ اک بھبھوکا بھبھک رہا ہے
by نظیر اکبر آبادی

یہ حسن ہے آہ یا قیامت کہ اک بھبھوکا بھبھک رہا ہے
فلک پہ سورج بھی تھرتھرا کر منہ اس کا حیرت سے تک رہا ہے

کھجوری چوٹی ادا میں موٹی جفا میں لمبی وفا میں چھوٹی
ہے ایسی کھوٹی کہ دل ہر اک کا ہر ایک لٹ میں لٹک رہا ہے

وہ نیچی کافر سیاہ پٹی کہ دل کے زخموں پہ باندھے پٹی
پڑھی ہے جس نے کہ اس کی پٹی وہ پٹی سے سر ٹپک رہا ہے

وہ ماتھا ایسا کہ چاند نکھرے پھر اس کے اوپر وہ بال بکھرے
دل اس کے دیکھے سے کیوں نہ بکھرے کہ مثل سورج چمک رہا ہے

وہ چین خود رو کٹیلے ابرو وہ چشم جادو نگاہیں آہو
وہ پلکیں کج خو کہ جن کا ہر مو جگر کے اندر کھٹک رہا ہے

غضب وہ چنچل کی شوخ بینی پھر اس پہ نتھنوں کی نکتہ چینی
پھر اس پہ نتھ کی وہ ہم نشینی پھر اس پہ موتی پھڑک رہا ہے

لب و دہاں بھی وہ نرم و نازک مسی و پاں بھی وہ قہر و آفت
سخن بھی کرنے کی وہ لطافت کہ گویا موتی ٹپک رہا ہے

وہ کان خوبی میں چھک رہے ہیں جواہروں میں جھمک رہے ہیں
ادھر کو جھمکے جھمک رہے ہیں ادھر کا بالا چمک رہا ہے

صراحی گردن وہ آبگینہ پھر آگے سینہ بھی جوں نگینہ
بھرا ہے جس میں تمام کینہ کہ جوں نگینہ دمک رہا ہے

کچیں وہ کچھ کچھ ثمر درختی کچھ ان کی سختی وہ کچھ کرختی
ہیں جس نے دیکھے وہ پھل درختی کلیجہ اس کا دھڑک رہا ہے

وہ سرخ انگیا جو کس رہی ہے وہ چس رہی ہے اکس رہی ہے
کچھ ایسے ڈھب سے وہ کس رہی ہے کہ اس کا کسنا کسک رہا ہے

وہ پیٹ دل کو لپیٹ لیوے وہ ناف جی کو سمیٹ لیوے
مزار جی کا جھپیٹ لیوے کچھ ایسا پیڑو پھڑک رہا ہے

وہ پیٹھ گوری کمر وہ پتلی غضب لگاوٹ وہ پھر سرین کی
اب آگے کہئے تو کیا کہوں میں کہ ہوش اس جا ٹھٹک رہا ہے

فقط وہ چمپے کی اک کلی ہے کچھ اک مندی ہے کچھ اک کھلی ہے
سلاخ سونے کی اک ڈلی ہے کہ گویا کندن دمک رہا ہے

وہ پیاری رانیں وہ گول ساقیں وہ کف ملائم وہ نرم پہنچے
کڑی کڑی سے کھڑک رہی ہے کڑا کڑے سے کھڑک رہا ہے

نظیرؔ خوبی میں اس پری کی کہوں کہاں تک ثنا بنا کر
صفت سراپا میں جس کے لکھنے دل اب اسی سے اٹک رہا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse