یہ دھوکا ہو نہ ہو امید ہی معلوم ہوتی ہے
یہ دھوکا ہو نہ ہو امید ہی معلوم ہوتی ہے
کہ مجھ کو دور سے کچھ روشنی معلوم ہوتی ہے
خدا جانے کس انداز نظر سے تم نے دیکھا ہے
کہ مجھ کو زندگی اب زندگی معلوم ہوتی ہے
اسی کا نام شاید زندگی نے یاس رکھا ہے
نفس کی جو کھٹک ہے آخری معلوم ہوتی ہے
ہوا ہے حسن سے کچھ اور عکس حسن خود داری
خموشی ان کے ہونٹوں پر ہنسی معلوم ہوتی ہے
نہ آیا ہاتھ میرے بڑھ کے جو دامن عنایت کا
یہ محرومی طلب کی کچھ کمی معلوم ہوتی ہے
جھکایا آج در پر اے زہے بخت سرافرازی
تری رحمت قبول بندگی معلوم ہوتی ہے
تجھے اپنے لیے دست کرم یہ جانتا ہوں میں
کہ تو ہے جس قدر دنیا وہی معلوم ہوتی ہے
کہاں ہوں کس طرف ہوں میں خبر اس کی نہیں مجھ کو
یہی گم گشتگی کچھ آگہی معلوم ہوتی ہے
سر موج نفس کشتئ دل کو کیا کہوں کیفیؔ
ابھرتی ہے جہاں تک ڈوبتی معلوم ہوتی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |