یہ سیدھے جو اب زلفوں والے ہوئے ہیں

یہ سیدھے جو اب زلفوں والے ہوئے ہیں
by ریاض خیرآبادی

یہ سیدھے جو اب زلفوں والے ہوئے ہیں
ہمارے ہی سب بل نکالے ہوئے ہیں

تبسم فزا میرے نالے ہوئے ہیں
ذرا شوخ اب شرم والے ہوئے ہیں

مرے ہاتھ پر کھیلے ہیں افعی زلف
یہ سانپ آستینوں کے پالے ہوئے ہیں

نہیں ہم کو لغزش کا ڈر میکدے میں
کہ دو دو فرشتے سنبھالے ہوئے ہیں

الجھتے ہیں سوتے میں زلفوں سے کیا کیا
وبال ان کو کانوں کے بالے ہوئے ہیں

چھپا کر بہت پی ہے مسجد میں واعظ
یہ ظرف‌ وضو سب کھنگالے ہوئے ہیں

شب وصل بولے نہ اب دل میں آئیں
جو ارمان میرے نکالے ہوئے ہیں

الگ ہے خدائی سے کچھ ساخت ان کی
یہ بت اور سانچے میں ڈھالے ہوئے ہیں

جو یاد اب تک آتے ہیں اہل چمن کو
قفس میں وہی نغمے نالے ہوئے ہیں

کسی پر دم حشر کیا آنکھ ڈالوں
حسیں سب مرے دیکھے بھالے ہوئے ہیں

جنوں رنگ لایا ہے پھر فصل گل میں
نہیں لالہ سب زخم آلے ہوئے ہیں

چراغ اب شب وصل جلنے نہ دیں گے
وہ گیسو جو بل کھا کے کالے ہوئے ہیں

نزاکت نے تیری گرایا نظر سے
سب کتنے بھاری دوشالے ہوئے ہیں

یہ اے شیخ گنبد نہیں مسجدوں میں
خم مے ہمارے اچھالے ہوئے ہیں

بھری بزم میں لطف خلوت نہیں ہے
وہ نشے میں ہیں ہم سنبھالے ہوئے ہیں

یہ کہتی ہے مست آنکھ ان کی شب وصل
کئی آج خالی پیالے ہوئے ہیں

بہے ہیں جو فرقت میں آنکھوں سے میری
وہ دریا تو آنکھیں نکالے ہوئے ہیں

ارے کانٹو جو اشک مژگاں سے ٹپکے
وہی پاؤں پڑ پڑ کے چھالے ہوئے ہیں

سبو آب زمزم سے دھو کر بھری مے
اچھوتے ہیں جتنے کھنگالے ہوئے ہیں

جوانی میں کیوں سر اٹھائیں نہ گیسو
کہ اب ڈسنے والے یہ کالے ہوئے ہیں

وہ محشر میں کیا عیب کھولیں گے میرے
جو رحمت سے اب پردہ ڈالے ہوئے ہیں

سنا ہے ریاضؔ اپنی داڑھی بڑھا کر
بڑھاپے میں اللہ والے ہوئے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse