یہ نہیں برق اک فرنگی ہے
یہ نہیں برق اک فرنگی ہے
رعد و باراں فسون جنگی ہے
کوئی دنیا سے کیا بھلا مانگے
وہ تو بیچاری آپ ننگی ہے
واہ دلی کی مسجد جامع
جس میں براق فرش سنگی ہے
حوصلہ ہے فراخ رندوں کا
خرچ کی پر بہت سی تنگی ہے
لگ گئے عیب سارے اس کے ساتھ
یوں کہا جس کو مرد بنگی ہے
ڈرو وحشت کے دھوم دھام سے تم
وہ تو اک دیونی دبنگی ہے
جوگی جی صاحب آپ کی بھی واہ
دھرم مورت عجب کو ڈھنگی ہے
آپ ہی آپ ہے پکار اٹھتا
دل بھی جیسے گھڑی فرنگی ہے
چشم بد دور شیخ جی صاحب
کیا ازار آپ کے اوٹنگی ہے
شیخ سعدیٔ وقت ہے انشاؔ
تو ابوبکرؔ سعد زنگی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |