یہ واعظ کیسی بہکی بہکی باتیں ہم سے کرتے ہیں
یہ واعظ کیسی بہکی بہکی باتیں ہم سے کرتے ہیں
کہیں چڑھ کر شراب عشق کے نشے اترتے ہیں
خدا سمجھے یہ کیا صیاد و گلچیں ظلم کرتے ہیں
گلوں کو توڑتے ہیں بلبلوں کے پر کترتے ہیں
دیا دم نزع میں گو آپ نے پر روح چل نکلی
کسی کے روکنے سے جانے والے کب ٹھہرتے ہیں
ذرا رہنے دو اپنے در پہ ہم خانہ بدوشوں کو
مسافر جس جگہ آرام پاتے ہیں ٹھہرتے ہیں
نہ آ جایا کرو اغیار کی الفت جتانے میں
وہ تم پر کیوں بھلا مرنے لگے فاقوں سے مرتے ہیں
ہر اک موسم میں کشت آرزو سرسبز رہتی ہے
تردد غیر کو ہوگا یہاں تو چین کرتے ہیں
یہ جوڑا کھولنا بھی ہیچ سے خالی نہیں ان کا
الجھ جاتا ہے دل جب بال شانوں پر بکھرتے ہیں
سمجھ لینا تمہارا اے رقیبو کچھ نہیں مشکل
خدا جانے یہ کس کا خوف ہے ہم کس سے ڈرتے ہیں
تکلف کے یہ معنی ہیں سمجھ لو بے کہے دل کی
مزا کیا جب ہمیں نے یہ کہا تم سے کہ مرتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |