یہ وہ نالے ہیں جو لب تک آئیں گے
یہ وہ نالے ہیں جو لب تک آئیں گے
تم تو کیا ہو آسماں ہل جائیں گے
عشق میں اک پیر دیرینہ ہوں میں
مجھ کو ناصح آ کے کیا سمجھائیں گے
حضرت دل سوچتے ہیں آج کچھ
پھر بلا کوئی مقرر لائیں گے
اس توقع پر اٹھاتے ہیں ستم
کچھ تو سمجھیں گے کبھی شرمائیں گے
پھینک دیں گے دل کو پہلو چیر کر
آپ دیکھیں کس طرح لے جائیں گے
حال دل کہتے ہیں جو کچھ ہو سو ہو
دیکھیے وہ آج کیا فرمائیں گے
پھر نہ چونکیں گے قیامت تک نسیمؔ
پاؤں جس دن قبر میں پھیلائیں گے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |