یہ کس کے سوز کا ہے بزم جاں میں انتظار اے دل
یہ کس کے سوز کا ہے بزم جاں میں انتظار اے دل
کہ آہیں آج سوئے عالم بالا نہیں جاتیں
امیدیں جب مری بڑھ آئیں تو ہنس کر لگے کہنے
یہ برسوں قید دل میں رہ کے کیوں گھبرا نہیں جاتیں
نہیں گستاخ آئینہ مقابل ہے کھڑا کوئی
یہ حیراں ہے کہ کیوں آنکھیں تری شرما نہیں جاتیں
کھڑا ہوں انتظار یار میں جوں شاخ نرگس میں
مجھے حیرت ہے کیوں آنکھیں مری پتھرا نہیں جاتیں
ترے گلشن میں تاروں کی بہار اک ہے عجب جادو
یہ کلیاں پھول بن کر اے فلک کمھلا نہیں جاتیں
ہمایوںؔ تیرا دل بھی گلشن حسرت کا نغمہ ہے
خوشی میں بھی تری باتیں وہ غم افزا نہیں جاتیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |