یہ کیا کہ ان کے دل کو نہ زنہار توڑیئے
یہ کیا کہ ان کے دل کو نہ زنہار توڑیئے
سو بار جا کے جوڑئیے سو بار توڑیئے
آؤ نہ مل کے بیٹھے ہیں بے شغل ہم سو کیوں
کٹ کیجے ان سے یاری اب اے یار توڑیئے
ہاتھ آوے کچھ اگر نہ سرشتہ بگاڑ کا
تو لڑ کے ان کی موتیوں کا ہار توڑیئے
یا چھیڑ چھاڑ کے لیے اک سنگ فرش سے
دس پانچ ان کے رخنۂ دیوار توڑیئے
یا لال چوری ڈالیوں کو توڑ تاڑ پر
رغبت سے ایک غنچۂ گلنار توڑیئے
شوخی تو دیکھو آج یہی قصد ہے کہ خیر
جس ڈھب سے ہووے خاطر دل دار توڑیئے
وہ کچھ کہیں پر اپنی ہے بس گائے جائیے
اور تان ادھر کو کوئی طرح دار توڑیئے
یا کود پھاند چول بھی ان کے پلنگ کے
بس ہو کے لڑنے بھڑنے کو تیار توڑیئے
پھول ان کی کیاریوں سے کسی اور روپ کا
کچھ کر کے بات چیت کے تکرار توڑیئے
سبزے کو روند ڈالئے یا ان کے باغ کے
نارنگیاں ہی چپکے سے دو چار توڑیئے
انشاؔ یہ روٹھ راٹھ ہی اک تاؤ بھاؤ کے
اس توڑ جوڑ کا نہ کبھی تار توڑیئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |