یہ گلہ دل سے تو ہرگز نہیں جانا صاحب
یہ گلہ دل سے تو ہرگز نہیں جانا صاحب
سب نے جانا ہمیں پر تم نے نہ جانا صاحب
ان بیانوں سے غرض ہم نے یہ جانا صاحب
آپ کو خون ہمارا ہے بہانا صاحب
چھوڑ کر آپ کے کوچہ کو پھروں صحرا میں
سو تو مجنوں سا نہیں ہوں میں دوانا صاحب
یاد تھے ہم کو جوانی میں تو سو مکر و فریب
اک کرشمہ تھا تمہیں دام میں لانا صاحب
اب جو بوڑھے ہیں تو اب بھی ہمیں شیطان نظیرؔ
ہنس کے کہتا ہے اجی آئیے نانا صاحب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |