یہ گوارا کہ مرا دست تمنا باندھے

یہ گوارا کہ مرا دست تمنا باندھے
by ریاض خیرآبادی

یہ گوارا کہ مرا دست تمنا باندھے
اپنی محرم کو نہ کس کر کوئی اتنا باندھے

بڑھ کے آئے نگہ شوق بلائیں لے لے
کوئی بیٹھا ہے کس انداز سے جوڑا باندھے

شہرت بے اثری کوئی مٹائے کیوں کر
ہو نہ درد آہ میں تو کوئی ہوا کیا باندھے

دھجیاں کیا مرے دامن کی مرے کام آئیں
بیٹھ کر دشت میں سب آبلۂ پا باندھے

ہے بری بات کہو کھول کے بوتل رکھ دے
شیخ پگڑی میں نہ بازار کا سودا باندھے

اک ذرا کھا لے ہوا نجد کی ٹھنڈی ٹھنڈی
کہہ دو لیلیٰ ابھی محمل میں نہ پردا باندھے

بکھری زلفیں یوں ہی لہرائیں رخ روشن پر
کبھی جوڑا نہ مرا گیسوؤں والا باندھے

جب میں دیکھوں مری آنکھوں میں مرا گھر پھر جائے
چکر اتنا تو بیاباں میں بگولا باندھے

ہم نے دیکھا طرف میکدہ جاتے تھے ریاضؔ
اک عصا تھامے عبا پہنے عمامہ باندھے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse