1919 کی ایک بات

1919 کی ایک بات
 (1951)
by سعادت حسن منٹو
325301
1919 کی ایک بات
1951سعادت حسن منٹو

یہ 1919ء کی بات ہے بھائی جان، جب رولٹ ایکٹ کے خلاف سارے پنجاب میں ایجی ٹیشن ہورہی تھی۔ میں امرتسر کی بات کر رہا ہوں۔ سر مائیکل اوڈوائر نے ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت گاندھی جی کا داخلہ پنجاب میں بند کر دیا تھا۔ وہ ادھر آرہے تھے کہ پلول کے مقام پر ان کو روک لیا گیا اور گرفتار کر کے واپس بمبئی بھیج دیا گیا۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں بھائی جان! اگر انگریز یہ غلطی نہ کرتا تو جلیاں والا باغ کا حادثہ اس کی حکمرانی کی سیاہ تاریخ میں ایسے خونیں ورق کا اضافہ کبھی نہ کرتا۔

کیا مسلمان، کیا ہندو، کیا سکھ، سب کے دل میں گاندھی جی کی بے حد عزت تھی۔ سب انھیں مہاتما مانتے تھے۔ جب ان کی گرفتاری کی خبر لاہور پہنچی تو سارا کاروبار ایک دم بند ہوگیا۔ یہاں سے امرتسر والوں کو معلوم ہوا، چنانچہ یوں چٹکیوں میں مکمل ہڑتال ہوگئی۔

کہتے ہیں کہ نو اپریل کی شام کو ڈاکٹر ستیہ پال اور ڈاکٹر کچلو کی جلا وطنی کے احکام ڈپٹی کمشنر کو مل گئے تھے۔ وہ ان کی تعمیل کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس کے خیال کے مطابق امرتسر میں کسی ہیجان خیز بات کا خطرہ نہیں تھا۔ لوگ پرامن طریقے پر احتجاجی جلسے وغیرہ کرتے تھے۔ جن سے تشدد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں اپنی آنکھوں دیکھا حال بیان کرتا ہوں۔ نوکو رام نومی تھی۔ جلوس نکلا مگر مجال ہے جو کسی نے حکام کی مرضی کے خلاف ایک قدم اٹھایا ہو، لیکن بھائی جان سرمائیکل عجب اوندھی کھوپڑی کا انسان تھا۔ اس نے ڈپٹی کمشنر کی ایک نہ سنی۔ اس پر بس یہی خوف سوار تھا کہ یہ لیڈر مہاتما گاندھی کے اشارے پر سامراج کا تختہ الٹنے کے در پے ہیں، اور جو ہڑتالیں ہو رہی ہیں اور جلسے منعقد ہوتے ہیں ان کے پس پردہ یہی سازش کام کر رہی ہے۔

ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی جلا وطنی کی خبر آناً فاناً شہر میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ دل ہر شخص کا مکدر تھا۔ ہر وقت دھڑکا سا لگا رہتا تھا کہ کوئی بہت بڑا حادثہ برپا ہونے والا ہے، لیکن بھائی جان جوش بہت زیادہ تھا۔ کاروبار بند تھے۔ شہر قبرستان بنا ہوا تھا، پر اس قبرستان کی خاموشی میں بھی ایک شور تھا۔ جب ڈاکٹرکچلو اور ستیہ پال کی گرفتاری کی خبر آئی تو لوگ ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے ہوئے کہ مل کر ڈپٹی کمشنر بہادر کے پاس جائیں اور اپنے محبوب لیڈروں کی جلا وطنی کے احکام منسوخ کرانے کی درخواست کریں۔ مگر وہ زمانہ بھائی جان درخواستیں سننے کا نہیں تھا۔ سرمائیکل جیسا فرعون حاکمِ اعلیٰ تھا۔ اس نے درخواست سننا تو کجا، لوگوں کے اس اجتماع ہی کو غیر قانونی قرار دیا۔

امرتسر۔۔۔ وہ امرتسر جو کبھی آزادی کی تحریک کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ جس کے سینے پر جلیاں والا باغ جیسا قابل فخرزخم تھا۔ آج کس حالت میں ہے۔۔۔؟ لیکن چھوڑیئے اس قصے کو۔ دل کو بہت دکھ ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس مقدس شہر میں جو کچھ آج سے پانچ برس پہلے ہوا اس کے ذمہ دار بھی انگریز ہیں۔ ہوگا بھائی جان، پر سچ پوچھئے تو اس لہو میں جو وہاں بہاہے ہمارے اپنے ہی ہاتھ رنگے ہوئے نظر آتے ہیں۔ خیر۔۔۔!

ڈپٹی کمشنر صاحب کا بنگلہ سول لائنز میں تھا۔ ہر بڑا افسر اور ہر بڑا ٹوڈی شہر کے اس الگ تھلگ حصے میں رہتا تھا۔۔۔ آپ نے امرتسر دیکھا ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ شہر اور سول لائنز کو ملانے والا ایک پل ہے جس پر سے گزر کر آدمی ٹھنڈی سڑک پر پہنچتا ہے۔ جہاں حاکموں نے اپنے لیے یہ ارضی جنت بنائی ہوئی تھی۔

ہجوم جب ہال دروازے کے قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ پل پرگھڑ سوار گوروں کا پہرہ ہے۔ ہجوم بالکل نہ رکا اور بڑھتا گیا۔ بھائی جان میں اس میں شامل تھا۔ جوش کتنا تھا، میں بیان نہیں کر سکتا، لیکن سب نہتے تھے۔ کسی کے پاس ایک معمولی چھڑی تک بھی نہیں تھی۔ اصل میں وہ تو صرف اس غرض سے نکلے تھے کہ اجتماعی طور پر اپنی آواز حاکم شہر تک پہنچائیں اور اس سےدرخواست کریں کہ ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو غیرمشروط طور پر رہا کردے۔ ہجوم پل کی طرف بڑھتا رہا۔ لوگ قریب پہنچے تو گوروں نے فائر شروع کردیے۔ اس سے بھگدڑ مچ گئی۔ وہ گنتی میں صرف بیس پچیس تھے اور ہجوم سیکڑوں پر مشتمل تھا، لیکن بھائی گولی کی دہشت بہت ہوتی ہے۔ ایسی افراتفری پھیلی کہ الاماں۔ کچھ گولیوں سے گھائل ہوئے اور کچھ بھگدڑ میں زخمی ہوئے۔

دائیں ہاتھ کو گندا نالا تھا۔ دھکا لگا تو میں اس میں گر پڑا۔ گولیاں چلنی بند ہوئیں تو میں نے اٹھ کر دیکھا، ہجوم تتر بتر ہو چکا تھا۔ زخمی سڑک پر پڑے تھے اور پل پر گورے کھڑے ہنس رہے تھے۔ بھائی جان مجھے قطعاً یاد نہیں کہ اس وقت میری دماغی حالت کس قسم کی تھی۔ میرا خیال ہے کہ میرے ہوش و حواس پوری طرح سلامت نہیں تھے۔ گندے نالے میں گرتے وقت تو قطعاً مجھے ہوش نہیں تھا۔ جب باہر نکلا تو جو حادثہ وقوع پذیر ہوا تھا، اس کے خدوخال آہستہ آہستہ دماغ میں ابھرنے شروع ہوئے۔

دور شور کی آواز سنائی دے رہی تھی جیسے بہت سے لوگ غصے میں چیخ چلا رہے ہیں۔ میں گندا نالا عبور کرکے ظاہرا پیر کے تکیے سے ہوتا ہوا ہال دروازے کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ تیس چالیس نوجوان جوش میں بھرے پتھر اٹھا اٹھا کر دروازے کے گھڑیال پر مار رہے ہیں۔ اس کا شیشہ ٹوٹ کر سڑک پرگرا تو ایک لڑکے نے باقیوں سے کہا، ’’چلو۔۔۔ ملکہ کا بت توڑیں!‘‘

دوسرے نے کہا، ’’نہیں یار۔۔۔ کوتوالی کو آگ لگائیں!‘‘

تیسرے نے کہا، ’’اور سارے بینکوں کو بھی!‘‘

چوتھے نے ان کو روکا، ’’ٹھہرو۔۔۔ اس سے کیا فائدہ۔۔۔ چلو پل پر ان لوگوں کو ماریں۔‘‘

میں نے اس کو پہچان لیا۔ یہ تھیلا کنجر تھا۔۔۔ نام محمد طفیل تھا مگر تھیلا کنجر کے نام سے مشہور تھا۔ اس لیے کہ ایک طوائف کے بطن سے تھا۔ بڑا آوارہ گرد تھا۔ چھوٹی عمر ہی میں اس کو جوئے اور شراب نوشی کی لت پڑ گئی تھی۔ اس کی دو بہنیں شمشاد اور الماس اپنے وقت کی حسین ترین طوائفیں تھیں۔ شمشاد کا گلا بہت اچھا تھا۔ اس کا مجرا سننے کے لیے رئیس بڑی دور دور سے آتے تھے۔ دونوں اپنے بھائی کی کرتوتوں سے بہت نالاں تھیں۔ شہر میں مشہور تھا کہ انھوں نے ایک قسم کا اس کو عاق کر رکھا ہے۔ پھر بھی وہ کسی نہ کسی حیلے اپنی ضروریات کے لیے ان سے کچھ نہ کچھ وصول کر ہی لیتا تھا۔ ویسے وہ بہت خوش پوش رہتا تھا۔ اچھا کھاتا تھا، اچھا پیتا تھا۔ بڑا نفاست پسند تھا۔ بذلہ سنجی اور لطیفہ گوئی مزاج میں کوٹ کوٹ کے بھری تھی۔ میراثیوں اور بھانڈوں کے سوقیانہ پن سے بہت دور رہتا تھا۔ لمبا قد، بھرے بھرے ہاتھ پاؤں، مضبوط کسرتی بدن۔ ناک نقشے کا بھی خاصا تھا۔

پرجوش لڑکوں نے اس کی بات نہ سنی اور ملکہ کے بت کی طرف چلنے لگے۔ اس نے پھر ان سے کہا، ’’میں نے کہا مت ضائع کرو اپنا جوش، ادھر آؤ میرے ساتھ۔۔۔ چلو ان کو ماریں جنہوں نے ہمارے بے قصور آدمیوں کی جان لی ہے اور انھیں زخمی کیا ہے۔۔۔ خدا کی قسم ہم سب مل کر ان کی گردن مروڑ سکتے ہیں۔۔۔ چلو!‘‘

کچھ روانہ ہو چکے تھے۔ باقی رک گئے۔ تھیلا پل کی طرف بڑھا تو اس کے پیچھے چلنے لگے۔ میں نے سوچا کہ ماؤں کے یہ لال بیکار موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ فوارے کے پاس دبکا کھڑا تھا۔ وہیں میں نے تھیلے کو آواز دی اور کہا، ’’مت جاؤ یار۔۔۔ کیوں اپنی اور ان کی جان کے پیچھے پڑے ہو۔‘‘ تھیلے نے یہ سن کر ایک عجیب سا قہقہہ بلند کیا اور مجھ سے کہا، ’’ تھیلا صرف یہ بتانے چلا ہے کہ وہ گولیوں سے ڈرنے والا نہیں۔‘‘ پھر وہ اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا، ’’ تم ڈرتے ہو تو واپس جا سکتے ہو۔‘‘

ایسے موقعوں پر بڑھے ہوئے قدم الٹے کیسے ہوسکتے ہیں۔ اور پھر وہ بھی اس وقت جب لیڈر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آگے آگے جا رہا ہو۔ تھیلے نے قدم تیز کیے تو اس کے ساتھیوں کو بھی کرنے پڑے۔ ہال دروازے سے پل کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں۔۔۔ ہوگاکوئی ساٹھ ستر گز کے قریب۔۔۔ تھیلا سب سے آگے آگے تھا۔ جہاں سے پل کا دو رویہ متوازی جنگلہ شروع ہوتا ہے، وہاں سے پندرہ بیس قدم کے فاصلے پر دو گھڑ سوار گورے کھڑے تھے۔ تھیلا نعرے لگاتا جب جنگلے کے آغاز کے پاس پہنچا تو فائر ہوا۔ میں سمجھا کہ وہ گر پڑا ہے۔۔۔ لیکن دیکھا کہ وہ اسی طرح۔۔۔ زندہ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کے باقی ساتھی ڈر کے بھاگ اٹھے ہیں۔ مڑ کر اس نے پیچھے دیکھا اور چلایا، ’’بھاگو نہیں۔۔۔ آؤ!‘‘

اس کا منہ میری طرف تھا کہ ایک اور فائر ہوا۔ پلٹ کر اس نے گوروں کی طرف دیکھا اور پیٹھ پر ہاتھ پھیرا۔۔۔ بھائی جان نظر تو مجھے کچھ نہیں آنا چاہیے تھا، مگر میں نے دیکھا کہ اس کی سفید بوسکی کی قمیص پر لال لال دھبے تھے۔۔۔ وہ اورتیزی سے بڑھا، جیسے زخمی شیر۔۔۔ ایک اور فائر ہوا۔ وہ لڑکھڑایا مگر ایک دم قدم مضبوط کرکے وہ گھڑ سوار گورے پر لپکا اور چشم زدن میں جانے کیا ہوا۔۔۔ گھوڑے کی پیٹھ خالی تھی۔ گورا زمین پر تھا اور تھیلا اس کے اوپر۔۔۔ دوسرے گورے نے جو قریب تھا اور پہلے بوکھلا گیا تھا، بِدکتے ہوئے گھوڑے کو روکا اور دھڑا دھڑ فائر شروع کردیے۔۔۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا مجھے معلوم نہیں۔ میں وہاں فوارے کے پاس بے ہوش ہو کر گر پڑا۔

بھائی جان جب مجھے ہوش آیا تو میں اپنے گھر میں تھا۔ چند پہچان کے آدمی مجھے وہاں سے اٹھا لائے تھے۔ ان کی زبانی معلوم ہوا کہ پل پر سے گولیاں کھا کر ہجوم مشتعل ہو گیا تھا۔ نتیجہ اس اشتعال کا یہ ہوا کہ ملکہ کے بت کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ ٹاؤن ہال اور تین بنکوں کو آگ لگی اور پانچ یا چھ گورے مارے گئے۔ خوب لوٹ مچی۔

لوٹ کھسوٹ کا انگریز افسروں کو اتنا خیال نہیں تھا۔ پانچ یا چھ یورپین ہلاک ہوئے تھے اس کا بدلہ لینے کے لیے چنانچہ، جلیاں والا باغ کا خونیں حادثہ رونما ہوا۔ ڈپٹی کمشنر بہادر نے شہر کی باگ ڈور جنرل ڈائر کے سپرد کردی۔ چنانچہ جنرل صاحب نے بارہ اپریل کو فوجیوں کے ساتھ شہر کے مختلف بازاروں میں مارچ کیا اور درجنوں بے گناہ آدمی گرفتار کیے۔ تیرہ کو جلیاں والا باغ میں جلسہ ہوا۔ قریب قریب پچیس ہزار کا مجمع تھا۔ شام کے قریب جنرل ڈائر مسلح گورکھوں اور سکھوں کے ساتھ وہاں پہنچا اور نہتے آدمیوں پر گولیوں کی بارش شروع کردی۔

اس وقت تو کسی کو نقصانِ جان کا ٹھیک اندازہ نہیں تھا۔ بعد میں جب تحقیق ہوئی تو پتہ چلا کہ ایک ہزار ہلاک ہوئے ہیں اور تین یا چار ہزار کے قریب زخمی۔۔۔ لیکن میں تھیلے کی بات کررہا تھا۔۔۔ بھائی جان آنکھوں دیکھی آپ کو بتا چکا ہوں۔۔۔ بے عیب ذات خدا کی ہے۔ مرحوم میں چاروں عیب شرعی تھے۔ ایک پیشہ ور طوائف کے بطن سے تھا مگر جیالا تھا۔۔۔ میں اب یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس ملعون گورے کی پہلی گولی بھی اس کے لگی تھی۔ آواز سن کر اس نے جب پلٹ کر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا تھا، اور انھیں حوصلہ دلایا تھا جوش کی حالت میں اس کو معلوم نہیں ہوا تھا کہ اس کی چھاتی میں گرم گرم سیسہ اتر چکا ہے۔ دوسری گولی اس کی پیٹھ میں لگی۔ تیسری پھر سینے میں۔۔۔ میں نے دیکھا نہیں، پر سنا ہے جب تھیلے کی لاش گورے سے جدا کی گئی تو اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن میں اس بری طرح پیوست تھے کہ علیحدہ نہیں ہوتے تھے۔۔۔ گورا جہنم واصل ہو چکا تھا۔

دوسرے روز جب تھیلے کی لاش کفن دفن کے لیے اس کے گھر والوں کے سپرد کی گئی تو اس کا بدن گولیوں سے چھلنی ہو رہا تھا۔۔۔ دوسرے گورے نے تو اپنا پورا پستول اس پر خالی کردیا تھا۔۔۔ میرا خیال ہے اس وقت مرحوم کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ اس شیطان کے بچے نے صرف اس کے مردہ جسم پر چاند ماری کی تھی۔

کہتے ہیں جب تھیلے کی لاش محلے میں پہنچی تو کہرام مچ گیا۔ اپنی برادری میں وہ اتنا مقبول نہیں تھا، لیکن اس کی قیمہ قیمہ لاش دیکھ کرسب دہاڑیں مار مار کررونے لگے۔ اس کی بہنیں شمشاد اور الماس تو بے ہوش ہوگئیں۔ جب جنازہ اٹھا تو ان دونوں نے ایسے بین کیے کہ سننے والے لہو کے آنسو روتے رہے۔

بھائی جان، میں نے کہیں پڑھا تھا کہ فرانس کے انقلاب میں پہلی گولی وہاں کی ایک ٹکھیائی کے لگی تھی۔ مرحوم محمد طفیل ایک طوائف کا لڑکا تھا۔ انقلاب کی اس جدوجہد میں اس کے جو پہلی گولی لگی تھی دسویں تھی یا پچاسویں، اس کے متعلق کسی نے بھی تحقیق نہیں کی۔ شاید اس لیے کہ سوسائٹی میں اس غریب کا کوئی رتبہ نہیں تھا۔ میں تو سمجھتا ہوں پنجاب کے اس خونیں غسل میں نہانے والوں کی فہرست میں تھیلے کنجر کا نام و نشان تک بھی نہیں ہوگا۔۔۔ اور یہ بھی کوئی پتہ نہیں کہ ایسی کوئی فہرست تیار بھی ہوئی تھی۔

سخت ہنگامی دن تھے۔ فوجی حکومت کا دور دورہ تھا۔ وہ دیو جسے مارشل لاء کہتے ہیں۔ شہر کے گلی گلی کوچے کوچے میں ڈکارتا پھرتا تھا۔ بہت افراتفری کے عالم میں اس غریب کوجلدی جلدی یوں دفن کیا گیا جیسے اس کی موت اس کے سوگوار عزیزوں کا ایک سنگین جرم تھی جس کے نشانات وہ مٹا دینا چاہتے تھے۔

بس بھائی جان تھیلا مر گیا۔ تھیلا دفنا دیا گیا اور۔۔۔ اور۔‘‘ یہ کہہ کر میرا ہم سفر پہلی مرتبہ کچھ کہتے کہتے رکا اور خاموش ہوگیا۔ ٹرین دندناتی ہوئی جارہی تھی۔ پٹریوں کی کھٹا کھٹ نے یہ کہنا شروع کردیا، ’’تھیلا مر گیا۔۔۔ تھیلا دفنا دیا گیا۔۔۔ تھیلا مر گیا۔۔۔ تھیلا دفنا دیا گیا۔‘‘ اس مرنے اور دفنانے کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں تھا، جیسے وہ اُدھرمرا اور اِدھر دفنا دیا گیا۔ اور کھٹ کھٹ کے ساتھ ان الفاظ کی ہم آہنگی کچھ اس قدر جذبات سے عاری تھی کہ مجھے اپنے دماغ سے ان دونوں کو جدا کرنا پڑا۔ چنانچہ میں نے اپنے ہم سفر سے کہا، ’’آپ کچھ اور بھی سنانے والے تھے؟‘‘

چونک کر اس نے میری طرف دیکھا۔ ’’جی ہاں۔۔۔ اس داستان کا ایک افسوسناک حصہ باقی ہے۔‘‘

میں نے پوچھا، ’’کیا؟‘‘

اس نے کہنا شروع کیا، ’’میں آپ سےعرض کر چکا ہوں کہ تھیلے کی دو بہنیں تھیں۔ شمشاد اور الماس۔ بہت خوبصورت تھیں۔ شمشاد لمبی تھی۔ پتلے پتلے نقش، غلافی آنکھیں، ٹھمری بہت خوب گاتی تھی۔ سنا ہے خاں صاحب فتح علی خاں سےتعلیم لیتی رہی تھی۔ دوسری الماس تھی۔ اس کے گلے میں سُر نہیں تھا، لیکن بتاوے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی۔ مجرا کرتی تھی تو ایسا لگتا تھا کہ اس کا انگ انگ بول رہا ہے۔ ہر بھاؤ میں ایک گھات ہوتی تھی۔۔۔ آنکھوں میں وہ جادو تھا جو ہر ایک کےسر پر چڑھ کے بولتا تھا۔‘‘

میرے ہم سفر نے تعریف و توصیف میں کچھ ضرورت سے زیادہ وقت لیا۔ مگر میں نے ٹوکنا مناسب نہ سمجھا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ خود اس لمبے چکر سے نکلا اور داستان کے افسوسناک حصے کی طرف آیا، ’’ قصہ یہ ہے بھائی جان کہ ان آفت کی پرکالہ دو بہنوں کے حسن و جمال کا ذکر کسی خوشامدی نے فوجی افسروں سے کردیا۔۔۔ بلوے میں ایک میم۔۔۔ کیا نام تھا اس چڑیل کا۔۔۔؟ مس۔۔۔ مس شروڈ ماری گئی تھی۔۔۔ طے یہ ہوا کہ ان کو بلوایا جائے اور۔۔۔ اور۔۔۔ جی بھر کے انتقام لیا جائے۔۔۔ آپ سمجھ گئے نا بھائی جان؟‘‘

میں نے کہا، ’’جی ہاں!‘‘

میرے ہم سفرنے ایک آہ بھری، ’’ ایسے نازک معاملوں میں طوائفیں اور کسبیاں بھی اپنی مائیں بہنیں ہوتی ہیں۔۔۔ مگر بھائی جان یہ ملک اپنی عزت و ناموس کو میرا خیال ہے پہچانتا ہی نہیں۔ جب اوپر سے علاقے کے تھانیدار کو آرڈر ملا تو وہ فوراً تیار ہوگیا۔ چنانچہ وہ خود شمشاد اور الماس کے مکان پر گیا اور کہا کہ صاحب لوگوں نے یاد کیا ہے۔ وہ تمہارا مجرا سننا چاہتے ہیں۔۔۔ بھائی کی قبر کی مٹی بھی ابھی تک خشک نہیں ہوئی تھی۔ اللہ کو پیارا ہوئے اس غریب کو صرف دو دن ہوئے تھے کہ یہ حاضری کا حکم صادر ہوا کہ آؤ ہمارے حضور ناچو۔۔۔ اذیت کا اس سے بڑھ کرپراذیت طریقہ کیا ہوسکتا ہے۔۔۔؟ مستبعد تمسخر کی ایسی مثال میرا خیال ہے شاید ہی کوئی اور مل سکے۔۔۔ کیا حکم دینے والوں کو اتنا خیال بھی نہ آیا کہ طوائف بھی غیرت مند ہوتی ہے۔۔۔؟ ہو سکتی ہے۔۔۔ کیوں نہیں ہوسکتی؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا، لیکن مخاطب وہ مجھ سے تھا۔

میں نے کہا، ’’ہو سکتی ہے!‘‘

’’جی ہاں۔۔۔‘‘ تھیلا آخر ان کا بھائی تھا۔ اس نے کسی قمار خانے کی لڑائی بھڑائی میں اپنی جان نہیں دی تھی۔ وہ شراب پی کر دنگا فساد کرتے ہوئے ہلاک نہیں ہوا تھا۔ اس نے وطن کی راہ میں بڑے بہادرانہ طریقے پر شہادت کا جام پیا تھا۔ وہ ایک طوائف کے بطن سے تھا۔ لیکن وہ طوائف ماں تھی اور شمشاد اور الماس اسی کی بیٹیاں تھیں اور یہ تھیلے کی بہنیں تھیں۔۔۔ طوائفیں بعد میں تھیں۔۔۔ اور وہ تھیلے کی لاش دیکھ کر بے ہوش ہوگئی تھیں۔ جب اس کا جنازہ اٹھا تھا تو انھوں نے ایسے بین کیے تھے کہ سن کر آدمی لہو روتا تھا۔۔۔‘‘

میں نے پوچھا ’’وہ گئیں؟‘‘

میرے ہم سفر نے اس کا جواب تھوڑے وقفے کے بعد افسردگی سے دیا، ’’جی ہاں۔۔۔ جی ہاں گئیں۔۔۔ خوب سج بن کر۔‘‘ ایک دم اس کی افسردگی تیکھا پن اختیار کر گئی، ’’سولہ سنگار کرکے اپنے بلانے والوں کے پاس گئیں۔۔۔ کہتے ہیں کہ خوب محفل جمی۔۔۔ دونوں بہنوں نے اپنے جوہر دکھائے۔۔۔ زرق برق پشوازوں میں ملبوس وہ کوہ قاف کی پریاں معلوم ہوتی تھیں۔۔۔ شراب کے دور چلتے رہے اور وہ ناچتی گاتی رہیں۔۔۔ یہ دونوں دور چلتے رہے۔۔۔ اور کہتے ہیں کہ۔۔۔ رات کے دو بجے ایک بڑے افسر کے اشارے پر محفل برخواست ہوئی۔۔۔‘‘ میرا ہم سفر کچھ دیر خاموش رہاپھروہ اٹھ کھڑا ہوااور باہر بھاگتے ہوئے درختوں کو دیکھنے لگا۔

پہیوں اور پٹریوں کی آہنی گڑگڑاہٹ کی تال پراس کے آخری دو لفظ ناچنے لگے، ’’برخواست ہوئی۔۔۔ برخواست ہوئی۔‘‘ میں نے اپنے دماغ میں انھیں، آہنی گڑگڑاہٹ سے نوچ کر علیحدہ کرتے ہوئے اس سے پوچھا، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘

بھاگتے ہوئے درختوں اور کھمبوں سے نظریں ہٹا کر اس نے بڑے مضبوط لہجےمیں کہا، ’’انھوں نے اپنی زرق برق پشوازیں نوچ ڈالیں اور الف ننگی ہوگئیں اور کہنے لگیں۔۔۔ لو دیکھ لو۔۔۔ ہم تھیلے کی بہنیں ہیں۔۔۔ اس شہید کی جس کے خوبصورت جسم کو تم نے صرف اس لیے اپنی گولیوں سے چھلنی چھلنی کیا تھا کہ اس میں وطن سے محبت کرنے والی روح تھی۔ ہم اسی کی خوبصورت بہنیں ہیں۔۔۔ آؤ، اپنی شہوت کے گرم گرم لوہے سے ہمارا خوشبوؤں میں بسا ہوا جسم داغدار کرو۔ مگر ایسا کرنے سے پہلے صرف ہمیں ایک بار اپنے منہ پر تھوک لینے دو۔۔۔‘‘

یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔ کچھ اس طرح کہ اور نہیں بولے گا۔ میں نے فوراً ہی پوچھا، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘

اس کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے، ’’ان کو۔۔۔ ان کو گولی سے اڑا دیا گیا۔‘‘

میں نے کچھ نہ کہا۔ گاڑی آہستہ ہوکر اسٹیشن پر رکی تو اس نے قلی بلا کر اپنا اسباب اٹھوایا۔ جب جانے لگا تومیں نے اس سے کہا، ’’آپ نے جو داستان سنائی، اس کا انجام مجھے آپ کا خود ساختہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘

ایک دم چونک کر اس نے میری طرف دیکھا، ’’یہ آپ نے کیسے جانا؟‘‘

میں نے کہا، ’’آپ کےلہجے میں ایک ناقابل بیان کرب تھا۔‘‘

میرے ہم سفرنے اپنےحلق کی تلخی تھوک کے ساتھ نگلتے ہوئے کہا، ’’جی ہاں۔۔۔ ان حرام۔۔۔‘‘ وہ گالی دیتے دیتے رک گیا۔ انھوں نے اپنے شہید بھائی کے نام پر بٹا لگا دیا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پلیٹ فارم پر اتر گیا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.