آؤ اب مل کے گلستاں کو گلستاں کر دیں
آؤ اب مل کے گلستاں کو گلستاں کر دیں
ہر گل و لالہ کو رقصاں و غزل خواں کر دیں
عقل ہے فتنۂ بیدار سلا دیں اس کو
عشق کی جنس گراں مایہ کو ارزاں کر دیں
دست وحشت میں یہ اپنا ہی گریباں کب تک
ختم اب سلسلۂ چاک گریباں کر دیں
خون آدم پہ کوئی حرف نہ آنے پائے
جنہیں انساں نہیں کہتے انہیں انساں کر دیں
دامن خاک پہ یہ خون کے چھینٹے کب تک
انہیں چھینٹوں کو بہشت گل و ریحاں کر دیں
ماہ و انجم بھی ہوں شرمندۂ تنویر مجازؔ
دشت ظلمات میں اک ایسا چراغاں کر دیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |