آئینہ تمہارے نقش پا کا
آئینہ تمہارے نقش پا کا
خورشید کو دے سبق جلا کا
او وصل میں منہ چھپانے والے
یہ بھی کوئی وقت ہے حیا کا
جب آنکھ کھلی تو بے خودوں سے
پردہ تھا جمال خود نما کا
دل اور وہ بت زہے مقدر
ظلم اور یہ دل غضب خدا کا
جا بیٹھے ہیں مجھ سے دور اٹھ کر
کیا پاس کیا ہے التجا کا
بولے وہ حسنؔ کا خون مل کر
کیا شوخ ہے رنگ اس حنا کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |