آبرو الفت میں اگر چاہئے
آبرو الفت میں اگر چاہئے
رکھنی سدا چشم کو تر چاہئے
دل تو تجھے دے ہی چکے جان بھی
لیجئے حاضر ہے اگر چاہئے
یار ملے یا نہ ملے صبح و شام
کوچۂ جاناں میں گزر چاہئے
نام بھی نم کا نہ رہا چشم میں
اب تو گریے لخت جگر چاہئے
تیر نگہ وہ ہے کہ جس تیر کے
سامنے ہونے کو جگر چاہئے
اب کی بچے جی تو کسو کے تئیں
پھر نہ کہیں بار دگر چاہئے
دل بھی جواہر ہے ولیکن حضور
اس کے پرکھنے کو نظر چاہئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |