آب حیات/خواجہ میر درد
درد تخلص خواجہ میر نام، زبان اُردو کے چار رکنوں میں سے ایک رکن (دیکھو صفحہ ۱۵۹) یہ ہیں۔ سلسلہ مادری ان کا خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی سےملتا ہے۔ خواجہ محمد ناصر عندلیب تخلص ان کے باپ تھے۔ اور شاہ گلشن صاحب سے نسبت ارادت رکھتے تھے۔ خاندان ان کا دلی میں بباعث پیری و مریدی کے نہایت معزز اور معظم تھا۔ علوم رسمی سے آگاہ تھے۔ کئی مہینے دولت صاحب سے مثنوی کا درس حاصل کیا تھا۔ ملک کی بربادی، سلطنت کی تباہی آئے دن کی غارت و تاراج کے سبب سے اکثر امراء وہ شرفاء کے گھرانے شہر چھوڑ چھوڑ کر نکل گئے۔ ان کے پائے استقلال کو جنبش نہ آئی۔ اپنے اللہ پر توکل رکھا اور جو سجادہ بزرگوں نے بچھایا اسی پر بیٹھے رہے۔ جیسی نیت ویسی برکت۔ خدا نے بھی نباہ دیا۔ دیوان اُردو مختصر ہے۔ سوا غزلیات اور ترجیع بند اور رباعیوں کے اور کچھ نہیں۔ قصائد و مثنوی وغیرہ کہ عادت شعراء کی ہے انھوں نے نہیں لکھے۔ باوجود اس کے سوداؔ، میر تقی کی کچھ غزلوں پر جا غزلیں لکھی ہیں، ہر گز ان سے کم نہیں۔ ایک مختصر دیوان غزلیات فارسی کا بھی ہے۔ تصنیف کا شوق ان کی طبیعت میں خداداد تھا۔ چنانچہ اول پندرہ برس کی عمر میں بحالت اعتکاف رسالہ اسرار الصلوٰٰۃ لکھا۔ اُنتیس برس کی عمر میں واردات درد نام ایک اردو رسالہ اور اس کی شرح میں علم الکتاب ایک بڑا نسخہ تحریر کیا کہ اس میں ایک سو گیارہ رسالے ہیں۔ نالہ درد، آہ سرد، درد دل، سوز دل، شمع محفل وغیرہ جنھیں شائق تصوف نظر عظمت سے دیکھتے ہیں۔ اور واقعات درد اور ایک رسالہ حرمتِ غنا میں ان سے یادگار ہے، چونکہ اس زمانے کے خاندانی خصوص اہل تصوف کو شاعری واجب تھی، اس واسطے ان کے والد بھی ایک دیوان مختصر مع اس کی شرح کے اور ایک رسالہ نالہ عندلیب موجود ہے۔ ان کے بھائی میاں سید محمد میر اثرؔ تخلص کرتے تھے، وہ بھی صاحب دیوان تھے۔ بنکہ ایک مثنوی خواب و خیال ان کی مشہور ہے اور بہت اچھی لکھی ہے، خواجہ میرؔ درد صاحب کی غزل سات (۷) شعر نو (۹) شعر کی ہوتی ہے۔ مگر انتخاب ہوتی ہے، خصوصاً چھوٹی بحروں میں جو اکثر غزلیں کہتے تھے۔ گویا تلواروں کی آب داری نشتر میں بھر دیتے تھے۔ خیالات ان کے سنجیدہ اور متین تھے۔ کسی کی ہجو سے زبان آلودہ نہیں ہوئی، تصوف جیسا انھوں نے کہا، اُردو میں آج تک کسی سے نہیں ہوا۔ میر صاحب نے انھیں آدھا شاعر شمار کیا ہے (دیکھو صفحہ ۲۷۵)۔ ان کے عہد کی زبان سننی چاہو، تو دیوان کو دیکھ لو، جو میرؔ و مرزاؔ کی زبان ہے، وہی ان کی زبان ہے۔
زمانے کے کلام میں بموجب ان کے کلام میں بھی نتؔ یعنی ہمیشہ اور ٹکؔ یعنی ذرا تئیں بمعنی کو، اور یہاں تئیں یعنی یہاں تک اور مجھ ساتھ یعنی میرے ساتھاور ایدھرؔ، کیدھرؔ، جیدھرؔ، نہیں بہ حذف ہ وغیرہ الفاظ موجود ہیں۔ چنانچہ اس دور کی تمہید میں میرؔ اور سوداؔ کے اشعار کے ساتھ کچھ اشعار ان کے بھی لکھے گئے ہیں۔ دو تین شعر نمونہ کے طور پر یہاں بھی لکھتا ہوں :
چلئے کہیں اس جاگہ کہ ہم تم ہوں اکیلے
گوشہ نہ ملے گا کوئی میدان ملے گا
جاگہ کے علاوہ اکثر جگہ کی کے اور ہے وغیرہ دب دب کر نکلتے ہیں :
ایک لحظہ اور بھی وہ اڑاتا چمن کا دید
فرصت نہ دی زمانہ نے نے اتنی شرار کو
اس سے اعتراض مقصود نہیں۔ وقت کی زبان یہی تھی۔ سید انشاء نے بھی لکھا ہے کہ خواجہ میر اثر مرحوم مثنوی میں ایک جگہ وسا بھی کہہ گئے ہیں اور بڑے بھائی صاحب تلوار کو نردار کہا کرتے تھے لیکن اس سے قطع نظر کر کے دیکھا جاتا ہے تو بعض الفاظ پر تعجب آتا ہے۔ چنانچہ خواجہ میر درد کی ایک پُر زور غزل کا مطلع ہے :
مدرسہ یا دیر تھا کعبہ یا بتخانہ تھا
ہم سبھی مہمان تھے تو آپھی صاحب خانہ تھا
گویا بُت خانہ کثرتِ استعمال کے سبب سے ایک لفظ تصور کیا کہ دیر کے حکم میں ہو گیا۔ ورنہ ظاہر کہ یہ قافیہ صحیح نہیں۔ اگلے وقتوں کے لوگ خوش اعتقاد بہت ہوتے تھے۔ اسی واسطے جو لوگ اللہ کے نام پر توکل کر کے بیٹھ رہتے تھے، اِن کی سب سے اچھی گزر جاتی تھی، یہی سبب ہے کہ خواجہ صاحب کو نوکری یا دلی سے باہر جانے کی ضرورت نہ ہوئی۔ دربار شاہی سے بزرگوں کی جاگیریں چلی آتی تھیں۔ امیر غریب خدمت کو سعادت سمجھتے تھے۔ یہ بے فکر بیٹھے اللہ اللہ کرتے تھے۔ شاہ عالم بادشاہ نے خود ان کے ہاں آنا چاہا۔ اور انھوں نے قبول نہ کیا۔ مگر ماہ بماہ ایک معمولی جلسہ اہل تصوف کا ہوتا تھا۔ اس میں بادشاہ بے اطلاع چلے آئے۔ اتفاقاً اس دن بادشاہ کے پاؤں میں درد تھا۔ اس لئے ذرا پاؤں پھیلا دیا۔ انھوں نے کہا، یہ فقیر کے آداب محفل کے خلاف ہے۔ بادشاہ نے عذر کیا کہ معاف کیجیے، عارضہ سے معذور ہوں۔ انھوں نے کہا کہ عارضہ تھا تو تکلیف کرنی کیا ضروری تھی۔
موسیقی میں اچھی مہارت تھی۔ بڑے بڑے باکمال گوئیے اپنی چیزیں بنظر اصلاح لا کر سنایا کرتے تھے۔ راگ ایک پُر تاثیر چیز ہے۔ فلاسفہ یونان اور حکمائے سلف نے اسے ایک شاخ ریاضی قرار دیا ہے۔ دل کو فرحت اور رُوح کو عروج دیتا ہے۔ اس واسطے اہلِ تصوف کے اکثر فرقوں نے اسے بھی عبادت میں شامل کیا ہے، چنانچہ معمول تھا، کہ ہر مہینے کی دوسری اور ۲۴ کو شہر کے بڑے بڑےکلاونت، ڈوم، گوئیے اور صاحب کمال اور اہل ذوق جمع ہوتے تھے اور معرفت کی چیزیں گاتے تھے۔ یہ دن ان کے کسی بزرک کی وفات کے ہیں، محرم غم کا مہینہ ہے۔ اس میں ۲ کو بجائے گانے کے مرثیہ خوانی ہوتی تھی۔ مولوی شاہ عبد العزیز صاحب کا گھرانا اور یہ خاندان ایک محلہ میں رہتے تھے، ان کے والد مرحوم کے زمانہ میں شاہ صاحب عالم طفولیت میں تھے۔ ایک دن اس جلسہ میں چلے گئے اور خواجہ صاحب کے پاس جا بیٹھے۔ ان کی مرید بہت سی کنچنیاں بھی تھیں اور چونکہ اس وقت رخصت ہوا چاہتی تھیں، اس لئے سب سامنے حاضر تھیں، باوجودیکہ مولوی صاحب اس وقت بچہ تھے، مگر ان کا تبسم اور طرزِ نظر کو دیکھ کر خواجہ صاحب اعتراض کو پا گئے۔ اور کہا کہ فقیر کے نزدیک تو یہ سب ماں بہنیں ہیں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ ماں بہنوں کو عوام الناس میں کر بیٹھنا کیا مناسب ہے۔ خواجہ صاحب خاموش رہے۔
ان کے ہاں ایک صحبت خاص ہوتی تھی۔ اس میں خواجہ میر دردؔ صاحب نالہ عندلیبؔ یعنی اپنے والد کی تصنیفات اور اپنے کلام کچھ کچھ بیان کرتے تھے۔ ایک دن مرزا رفیع سے سر راہ ملاقات ہوئی۔ خواجہ صاحب نے تشریف لانے کے لئے فرمائش کی۔ مرزا نے کہا، صاحب مجھے یہ نہیں بھاتا کہ سو (۱۰۰) کوئے کائیں کائیں کریں اور بیچ میں ایک پدا بیٹھ کر چوں چُوں کرے۔ اُس زمانہ کے بزرگ ایسے صاحب کمالوں کی بات کا تحمل اور برداشت کرنا لازمہ بزرگی سمجھتے تھے۔ آپ مُسکرا کر چُپکے ہو رہے۔
مرزائے موصوف نے ایک قصیدہ نواب احمد علی خاں کی تعریف میں کہا ہے اور تمہید میں اکثر شعراء کا ذکر انھیں شوخیوں کے ساتھ کیا جو انکے معمولی اندزا ہیں۔ چنانچہ اسی ضمن میں کہتے ہیں :
دردؔ کس کس طرح بلاتے ہیں
کر کے آواز منحنی و حزیں
اور جو احمد ان کے سامع ہیں
دمبدم ان کو یوں کریں تحسیں
جیسے سُبحَان من پرانی پر
لڑکے مکتب کے سب کہیں آمین
کوئی پوچھے ذرا کہ عالم میں
فخر کس چیز کا ہے ان کے تئیں
شعر و تقطیع ان کے دیواں کی
جمع ہووے تو جیسے نقش نگیں
اس میں بھی دیکھئے تو آخر کار
یا توارد ہوا ہے یا تضمین
اتنی کچھ شاعری پر کرتے ہیں
میخ در ۔۔۔۔۔۔ آسماں و زمین
خیر یہ شاعرانہ شوخیاں ہیں، ورنہ عام عظمت اُن کی جو عالم پر چھائی ہوئی تھی، اس کے اثر سے سوداؔ کا دل بھی بے اثر نہ تھا۔ چنانچہ کہا ہے :
سودا بدل کے قافیہ تو اس غزل کا لکھ
اے بے ادب تو درد سے بس دوبدو نہ ہو
نقل : ایک شخص لکھنؤ سے دلی چلے، مرزا رفیع کے پاس گئے۔ اور کہا کہ دلی جاتا ہوں، کسی یار آشنا کو کچھ کہنا ہو تو کہہ دیجیے۔ مرزا بولے کہ بھائی میرا دلی میں کون ہے، ہاں خواجہ میر دردؔ کی طرف جا نکلو تو سلام کہہ دینا۔
ذرا خیال کر کے دیکھو مرزا رفیع جیسے شخص کو دلی بھر میں (دلی بھی اس زمانہ کی دلی) کوئی آدمی معلوم نہ ہوا، اِلا وہ کیا کیا جواہر تھے اور کیا کیا جوہری، سبحان اللہ۔ استاد نے کیا کیا موتی پروئے ہیں :
دکھلائے ہم نے آنکھ سے لیکر جو دُرِ اشک
قائل ہماری آنکھ کے سب جوہری ہوئے
خواجہ صاحب کا ایک شعر ہے : لطیفہ :
بیگانہ گر نظر پڑے تو آشنا کو دیکھ
بندہ گر آئے سامنے تو بھی خدا کو دیکھ
اِسی مضمون کا شعر فارسی کا ہے :
بسکہ در چشم و دلم ہر لحظہ اے یارم توئی
ہر کہ آید در نظر از دور پندارم توئی
جب یہ شعر شاعر نے جلسہ میں پڑھا تو مُلا شیدا ایک شوخ طبع، دہن دریدہ شاعر تھے، انھوں نے کہا کہ اگر سگ در نظر آید۔ شاعر نے کہا، پندارم توئی، مگر انصاف شرط ہے، خواجہ صاحب نے اپنے شعر میں اس پہلو کو خوب بچایا ہے۔
اے دردؔ یہ درد جی کا کھونا معلوم
جوں لالہ جگر سے داغ دھونا معلوم
گلزار جہاں ہزار پُھولے لیکن
میرے دل کا شگفتہ ہونا معلوم
شاہ حاتم کی رباعی بھی اسی مضمون میں لاجواب ہے۔
ان سیم بروں کے ساتھ سونا معلوم
قِسمت میں لکھی ہے خاک سونا معلوم
حاتم افسوس ولے و امروز گذشت
فردا کی رہی امید سونا معلوم
میر تقی اور سوداؔ اور مرزا جانجاناں مظہرؔ ان کے ہمعصر تھے۔ قیام الدین قائم ان کا وہ شاگرد تھا جس پر اُستاد کو فخر کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہدایت اللہ خاں ہدایتؔ، ثناء اللہ خاں فراقؔ وغیرہ بھی نام شاگرد تھے۔
خواجہ صاحب ۲۴ صفر یوم جمعہ ۱۱۹۹ھ ۶۸ برس کی عمر میں شہر دہلی میں فوت ہوئے۔ کسی مرید بااعتقاد نے تاریخ کہی۔
مصرعہ : حیف دُنیا سے سدھارا وہ خدا کا محبُوب
غزلیات
جگ میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
جان سے ہو گئے بدن خالی
جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا
نالہ فریاد آہ اور زاری
آپ سے ہو سکا سو، کر دیکھا
اُن لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سو (۱۰۰) سو (۱۰۰) طرح سے مر دیکھا
زور عاشق مزاج ہے کوئی
دردؔ کو قصہ مختصر دیکھا
ہم نے کِس رات نالہ سر نہ کیا
پر اُسے آہ کچھ اثر نہ کیا
سب کے یاں تم ہوئے کرم فرما
اس طرف کو کبھی گذر نہ کیا
دیکھنے کو رہے ترستے ہم
نہ کیا رحم تو نے پر نہ کیا
تجھ سے ظالم کے پاس میں آیا
جان کا میں نے کچھ خطر نہ کیا
کیوں بھویں تانتے ہو بندہ نواز
سینہ کس وقت میں سپر نہ کیا
کتنے بندوں کو جان سے کھویا
کچھ خدا کا بھی تو نے ڈر نہ کیا
آپ سے ہم گذر گئے کب کے
کیا ہے ظاہر میں گو سفر نہ کیا
کون سا دل ہے جس میں خانہ خراب
خانہ آباد تو نے گھر نہ کیا
سب کے جوہر نظر میں آئے دردؔ
بے ہنر تو نے کچھ ہنر نہ کیا
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر ترے عہد کے آگے تو یہ دستور نہ تھا
رات مجلس میں ترے حُسن کے شعلہ کے حضور
شمع کے منھ پہ جو دیکھا تو کہیں نُور نہ تھا
ذکر میرا ہی وہ کرتا تھا صریحاً لیکن
میں نے پوچھا تو کہا خیر یہ مذکور نہ تھا
باوجودیکہ پَر و بال نہ تھے آدم کے
وہاں پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا
پرورش غم کی ترے یہاں تئیں تو کی دیکھا
کوئی بھی داغ تھا سینہ میں کہ ناسور نہ تھا
محتسب آج تو میخانہ میں تیرے ہاتھوں
دل نہ تھا کوئی کہ شیشہ کی طرح چور نہ تھا
دردؔ کے ملنے سے اے یار برا کیوں مانے
اس کو کچھ اور سوا دید کے منظور نہ تھا
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہو گا
کہ نہ ہنسنے میں رو دیا ہو گا
اُس نے قصداً بھی میرے نالہ کو
نہ سُنا ہو گا، گر سُنا ہو گا
دیکھئے غم سے اب کے جی میرا
نہ بچے گا، بچے گا کیا ہو گا
دل زمانہ کے ہاتھ سے سالم
کوئی ہو گا کہ رہ گیا ہو گا
حال مجھ غمزدے کا جس تس نے
جب سُنا ہو گا رو دیا ہو گا
دل کے پھر زخم تازہ ہوتے ہیں
کہیں غنچہ کوئی کِھلا ہو گا
یک بیک نام لے اُٹھا میرا
جی میں کیا اُس کے آ گیا ہو گا
میرے نالوں پہ کوئی دنیا میں
بِن کئے آہ کم رہا ہو گا
لیکن اس کو اثر خدا جانے
نہ ہوا ہو گا، یا ہوا ہو گا
قتل سے میرے وہ جو باز رہا
کسی بدخواہ نے کہا ہو گا
دل بھی اے درد قطرہ خوں تھا
آنسوؤں میں کہیں گِرا ہو گا
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
مرا جی ہے جب تک تری جستجو ہے
زباں جب تلک ہے یہی گفتگو ہے
خدا جانے کیا ہو گا انجام اس کا
میں بے صبر اتنا ہوں وہ تند خو ہے
تمنا ہے تیری اگر ہے تمنا
تری آرزو ہے اگر آرزو ہے
کیا سیر سب ہم نے گلزار دُنیا
گل دوستی میں عجب رنگ و بُو ہے
کسو کو کسو طرح عزت ہے جگ میں
مجھے اپنے رونے سے ہی آبرو ہے
غنیمت ہے یہ دید و ادید یاراں
جہاں مُند ہو گئی آنکھ میں ہوں نہ تو ہے
نظر میرے دل کی پڑی دردؔ کس پر
جدھر دیکھتا ہوں وہی روبرو ہے
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لئے آئے تھے سو ہم کر چلے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے اِدھر اُودھر چلے
دوستو دیکھا تماشا یاں کا بس
تم رہو اب ہم تو اپنے گھر چلے
آہ بس مت جی جلا تب جانئے
جب ترا افسوں کوئی اس پر چلے
شمع کی مانند ہم اس بزم میں
چشم تر آئے تھے دامن تر چلے
ڈھونڈھتے ہیں آپ سے اسکو پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر باہر چلے
ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے
وہ ہی آڑے آ گیا جیدھر چلے
ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے
ساتھ اپنے آپ اُسے لیکر چلے
جوں شرر ہے ہستی بے بود یاں
بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
دردؔ کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
ہے غلط گماں گر گمان میں کچھ ہے
تجھ سِوا بھی جہان میں کچھ ہے
دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے
بے خبر تیغ یار کہتی ہے
باقی اس نیم جان میں کچھ ہے
اس دنوں کچھ عجب ہے دل کا حال
دیکھا کچھ ہے دھیان میں کچھ ہے
دردؔ تو جو کرے ہے جی کا زیاں
فائدہ اس زیان میں کچھ ہے
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
گلیم بخت سیہ سیایہ دار رکھتے ہیں
یہی بساط میں ہم خاکسار رکھتے ہیں
بسانِ کاغذ آتش زدہ مرے گلرو
ترے جلے بُھنے اور ہی بہار رکھتے ہیں
یہ کس نے ہم سے کیا وعدہ ہم آغوشی
کہ مثلِ بحر سرا سرکنار رکھتے ہیں
ہمیشہ فتح نصیبی ہمیں نصیب رہی
جو کچھ کہ اپچی ہے جی میں سو مار رکھتے ہیں
بلا ہے نشہ دُنیا کہ تاقیامت آہ
سب اہل قبر اسی کا خمار رکھتے ہیں
جہاں کے باغ سے ہم دل سوا نہ پھل پایا
فقط یہی ثمر داغ دار رکھتے ہیں
اگرچہ دختر زر کے ہے محتسب در پے
جو ہو، سو ہو پر اسے اب تو باز رکھتے ہیں
ہر ایک شعلہ غمِ عشق ہم سے روشن ہے
کہ بے قراری کو ہم برقرار رکھتے ہیں
ہمارے پاس ہے کیا جو کریں فدا تجھ پر
مگر یہ زندگی مستعار رکھتے ہیں
فلک سمجھ تو سہی ہم سے اور گلو گیری
یہ ایک جیب ہے سو تار تار رکھتے ہیں
بتوں کے جور اُٹھائے ہزارہا ہم نے
جو اس پہ بھی نہ ملیں اختیار رکھتے ہیں
بھری ہے آ کے جنھوں نے ہوائے آزادی
حباب دار کُلہ بھی اتار رکھتے ہیں
نہ برق ہیں، نہ شرر ہم نہ شعلہ نے سیماب
وہ کچھ ہیں پر، کہ سدا اضطرار رکھتے ہیں
جنھوں کے دلمیں جگہ کی ہے نقش عبرت نے
سدا نظر میں وہ لوحِ مزار رکھتے ہیں
ہر ایک سنگ میں ہے شوخی بتاں پنہاں
خنک یہ سب ہیں پہ دلمیں شرار رکھتے ہیں
وہ زندگی کی طرح ایک دم نہیں رہتا
اگرچہ دردؔ اُسے ہم ہزار رکھتے ہیں
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
ہر ایک سنگ میں ہے شوخی بُتاں پنہاں
خنک یہ سب ہیں پہ دلمیں شرار رکھتے ہیں
وہ زندگی کی طرح ایک دم نہیں رہتا
اگرچہ دردؔ اُسے ہم ہزار رکھتے ہیں
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
پیدا کرے ہر چند تقدس بندہ
مشکل ہے کہ حرص سے ہو دل برکندہ
جنت میں بھی اکل و شرب سے نہیں (*) ہے نجات
دوزخ کا بہشت میں بھی ہو گا دھندہ
(*) رباعی کے تیسرے مصرع میں نہیں دب کر نکلتا ہے۔ اس عہد کے شعراء کا عام محاورہ ہے۔