آب حیات/سید محمد میر سوز

سوز تخلص، سید محمد میر نام، وہی شخص ہیں جنھیں میر تقی (دیکھو صفحہ ۲۷۵، میر صاحب ملک سخن کے بادشاہ تھے۔ جن لفظوں میں چاہا کہہ دیا۔ مگر بات ٹھی ہے، دیوان دیکھ لو، وہی باتیں ہیں، باقی خیر و عافیت۔) نے پاؤ شاعر مانا ہے۔ پُرانی دلی میں قراول پورہ ایک محلہ تھا، وہاں رہتے تھے۔ مگر اصلی وطن بزرگوں کا بخارا تھا۔ باپ ان کے سید ضیاء الدین بہت بزرگ شخص تھے۔ تیر اندازی میں صاحب کمال مشہور تھے اور حضرت قطب عالم گجراتی کی اولاد میں تھے۔ سوز مرحوم پہلے میرؔ تخلص کرتے تھے۔ جب میر تقی میر کے تخلص سے عالمگیر ہوئے تو انھوں نے سوز اختیار کیا۔ چنانچہ ایک شعر میں دونوں تخلصوں کا اشارہ کرتے ہیں۔

کہتے تھے پہلے میر میر تب نہوئے ہزار حیف اب جو کہے ہیں سوز سوز یعنی سدا جلا کرو​

جو کچھ حال ان کا بزرگوں سے سُنا یا تذکروں میں دیکھا۔ اس کی تصدیق ان کا کلام کرتا ہے یعنی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی طبع موزوں کے آئینہ کو جس طرح فصاحت نے صفائی سے جلا کی تھی اسی طرح ظرافت اور خوش بطعی نے اس میں جوہر پیدا کیا تھا۔ ساتھ اس کے جس قدر نیکی و نیک ذاتی نے عزت دی تھی اس سے زیادہ وسعتِ اخلاق اور شیریں کلامی نے ہردلعزیز کیا تھا اور خاکساری کے سب جوہروں کو زیادہ تر چمکا دیا تھا۔ آزادگی کے ساتھ وضعداری بھی ضرور تھی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ باوجود مفلسی کے ہمیشہ مسندِ عزت پر صاحب تمکین اور امراء اور روساء کے پہلو نشین رہے اور اسی میں معشیت کا گذارہ تھا۔

شاہ عالم کے زمانہ میں جب اہل دہلی کی تباہی حد سے گذر گئی تو ۱۱۹۱ھ میں لباس فقیری اختیار کیا اور لکھنؤ چلے گئے۔ مگر وہاں سے ۱۲۱۲ھ میں ناکام مرشد آباد گئے۔ یہاں بھی نصیب نے یاوری نہ کی۔ پھر لکھنؤ میں آئے۔ اب قسمت رجوع ہوئی۔ اور نواب آصف الدولہ ان کے شاگرد ہوئے۔ چند روز آرام سے گذرے تھے کہ خود دُنیا سے گذر گئے۔ نواب کی غزلوں کو انہیں کا انداز ہے۔

صاحب تذکرہ گلزار ابراہیمی لکھتے ہیں۔ اب کہ ۱۱۹۶ھ میں میر موصوف لکھنؤ میں ہیں۔ اب تک ان سید والا تبار سے راقم آثم کی ملاقات نہیں ہوئی مگر اسی برس میں کچھ اپنے شعر اور چند فقرے نثر کے اس خاکسار کو بھیجے ہیں۔ میر سوز شخصے ست کہ ہیچکس را از حلاوتے جز سکوت و اکراہ حاصل نہ شود ایں نیز قدرت کمال الٰہی ست کہ ہریکے بلکہ خار و خسے نیست کہ بکار چند بیایدیں۔ اگر منکرے سوال کند کہ ناکارہ محض بیفتا داست۔ ج ۔۔۔ ایں کہ نامش سوختنی ست (دو تذکروں میں اس عبارت کو مطابق کیا۔ کوئی نسخہ مطلب خیز نہ نکلا۔ اس لئے جو کچھ ملا، سیدؔ موصوف کا تبرک سمجھ کر غنیمت جانا۔

خط شفیعا اور نستعلیق خوب لکھتے تھے۔ ممالک ایران و خراساں وغیرہ میں قاعدہ ہے کہ جب شرفاء ضروریات سے فارغ ہوتے ہیں تو ہم لوگوں کی طرح خالی نہیں بیٹھتے۔ مشق خط کیا کرتے ہیں، اسی واسطے علی العموم اکثر خوشنویش ہوتے ہیں۔ پہلے یہاں بھی دستور تھا۔ اب خوشنویسی تو بالائے طاق بدنویسی پر بھی حرف آتا ہے۔

میر موصوف سواری میں شہسوار اور فنون سپہ گری میں ماہر خصوصاً تیر اندازی میں قد انداز تھے۔ ورزش کرتے تھے اور طاقت خدا داد بھی اس قدر تھی کہ ہر ایک شخص ان کی کمان کو چڑھا نہ سکتا تھا۔ غرض ۱۲۱۳ھ میں شہر لکھنو میں ۷۰ برس کی عمر میں فوت ہوئے۔ ان کے بیٹے شاعر تھے اور باپ کے تخلص کی رعایت سے داغؔ تخلص کرتے تھے۔ جوانی میں اپنے مرنے کا داغ دیا۔ اور اس سے زیادہ افسوس یہ کہ کوئی غزل ان کی دستیاب نہ ہوئی۔

خود حسین بھے اور حسینوں کے دیکھنے والے تھے۔ آخر غمِ فراق میں جان دی۔ میر سوزؔ مرحوم کی زبان عجیب میٹھی زبان ہے اور حقیقت میں غزل کی جان ہے۔ چنانچہ غزلیں خود ہی کہے دیتی ہیں۔ ان کی انشاء پردازی کا حُسن، تکلف اور صناع مصنوعی سے بالکل پاک ہے۔ اس خوش نمائی کی ایسی مثال ہے جیسے ایک گلاب کا پھول ہری بھری ٹہنی پر کٹورا سا دھرا ہے اور سر سبز پتیوں میں اپنا اصلی جوبن دکھا رہا ہے۔ جن اہل نظر کو خدا نے نظر باز آنکھیں دی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک حُسنِ خدا داد کے سامنے ہزاروں بناوٹ کے بناؤ سنگار کر کے قربان ہوا کرتے ہیں، البتہ غزل میں دو تین شعر کے بعد ایک آدھ پرانا لفظ ضرور کھٹک جاتا ہے۔ خیر اس سے قطع نظر کرنی چاہیے۔

مصرعہ : فکر معقول بفرماگلِ بے خارکجاست​

غزل – لغت میں عورتوں سے باتیں چیتیں ہیں، اور اصطلاح میں یہ ہے کہ عاشق اپنے معشوق کے ہجر یا وصل کے خیالات کو وسعت دے کر اس کے بیان سے دل کے ارمان یا غم کا بخار نکالے اور زبان بھی وہ ہو کہ گویا دونوں آمنے سامنے بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ بس وہ کلام ان کا ہے۔ معشوق کو بجائے جانا کے فقط جان یا میاں یا میاں جان کہہ کر خطاب کرنا ان کا خاص محاورہ ہے۔

مجالس رنگین کی بعض مجلسوں سے اور ہمارے عہد سے پہلے کے تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا کلام صفائی محاورہ اور لطف زبان کے باب میں ہمیشہ سے ضرب المثل ہے۔ ان کے شعر ایسے معلوم ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی چاہنے والا اپنے چاہیتے عزیز سے باتیں کر رہا ہے۔ وہ اپنی محبت کی باتوں کو اس طرح باندھتے تھے کہ شعر کی موزونیت کے لئے لفظوں کا آگے پیچھے کرنا بھی گوارا نہ سمجھتے تھے۔ میر تقی کہیں کہیں اُن کے قریب قریب آ جاتے ہیں۔ پھر بھی بہت فرق ہے، وہ بھی محاورہ خوب باندھتے تھے۔ مگر فارسی کو بہت نباہتے تھے۔ اور مضامین بلند لاتے تھے۔ سوداؔ بہت دور ہیں کیونکہ مضامین کو تشبیہ و استعارے کے رنگ میں غوطے دے کر محاورہ میں ترکیب دیتے تھے اور اپنے زور شاعری سے لفظوں کو پس و پیش کر کے اس بندوبست کے ساتھ جڑتے تھے کہ لطف اس کا دیکھے ہی سے معلوم ہوتا ہے۔

میر سوزؔ جیسے سیدھے سیدھے مضمون باندھتے تھے ویسے ہی آسان آسان طرحیں بھی لیتے تھے بلکہ اکثر ردیف چھوڑ کر قافیہ ہی پر اکتفا کرتے تھے۔ ان کے شعر کا قوام فقط محاورہ کی چاشنی پر ہے۔ اضافت تشبیہ، استعارہ فارسی ترکیبیں ان کے کلام میں بہت کم ہیں۔ ان لحاظوں سے انھیں گویا اردو غزل کا شیخ سعدی کہنا چاہیے۔ اگر اس انداز پر زبان رہتی یعنی فارسی کے رنگین خیال اس میں داخل نہ ہوتے اور قوت بیانی کا مادہ اس میں زیادہ ہوتا تو آج ہمیں اس قدر دشواری نہ ہوتی۔ اب دوہری مشکلیں ہیں۔ اول یہ کہ رنگین استعارات اور مبالغہ کے خیالات گویا مثل تکیہ کلام کے زبانوں پر چڑھ گئے ہیں، یہ عادت چھڑانی چاہیے۔ پھر اس میں نئے انداز اور سادہ خیالات کو داخل کرنا چاہیے۔ کیوں کہ سالہا سال سے کہتے کہتے اور سنتے سنتے کہنے والوں کی زبان اور سننے والوں کے کان اس کے انداز سے ایسے آشنا ہو گئے ہیں کہ نہ سادگی میں لطف زبان کا حق ادا ہو سکتا ہے اور نہ سننے والوں کو مزا دیتا ہے۔

زیادہ تر سوداؔ اور کچھ میرؔ نے اس طریقہ کو بدل کر استعاروں کو ہندی محاوروں کے ساتھ ملا کر ریختہ متین بنایا۔ اگر میرؔ و سودا اور ان کی زبان میں فرق بیان کرنا ہو تو یہ کہہ دو کہ بہ نسبت عہد سودا کے دیوان میں اردو کا نوجوان چند سال چھوٹا ہے، اور یہ امر بہ اعتبار مضمون اور کیا بلحاظ محاورہ قدیم ہر امر میں خیال کر لو، چنانچہ کو، کہ علامت مفعول ہے لہو اور کبھو کا قافیہ بھی باندھ جاتے تھے۔ انھوں نے سوائے غزل کے اور کچھ نہیں کہا اور اس وقت تک اُردو کی شاعری کی اتنی ہی بساط تھی۔ ۱۲ سطر کے صفحہ سے ۳۰۰ صفحہ کا کل دیوان ہے۔ اس میں سے ۳۸۸ صفحہ غزلیات، ۱۲ صفحہ مثنوی، رباعی مخمس، باقی دالسلام۔ آغاز مثنوی کا یہ شعر ہے :

دعوےٰ بڑا ہے سوزؔ کو اپنے کلام کا جو غور کیجیے تو ہے کوڑی کے کام کا​

نقل – ایک دن سوداؔ کے ہاں میر سوزؔ تشریف لائے۔ ان دنوں میں شیخ علی حزیںؔ کی غزل کا چرچا تھا۔ جس کا مطلع یہ ہے :

مے گرفتیم بجا ناں سرِ راہے گاہے اوہم از لطف نہاں داشت نگاہے گاہے​

میر سوزؔ مرحوم نے اپنا مطلع پڑھا :

نہیں نکسے ہے مرے دل کی اپاہے گاہے اے فلک بہرِ خدا رخصت آہے گاہے​

مرزا سُن کر بولے کہ میر صاحب بچپن میں ہمارے ہاں پشور کی ڈومنیاں آیا کرتی تھیں، یا تو جب یہ لفظ سُنا تھا یا آج سُنا۔ میر سوزؔ بچارے ہنس کر چُپکے ہو رہے پھر مراز نے خود اسی وقت مطلع کہہ کر پڑھا :

نہیں جوں گل ہوسِ ابر سیا ہے گاہے کاہ ہوں خشک میں اے برق نگاہے گاہے​

میاں جرات کی ان دنوں میں ابتدا تھی، خود جراؔءت نہ کر سکے ۔ ایک اور شخص نے کہا کہ حضرت! یہ بھی عرض کیا چاہتے ہیں۔ مرزا نے کہا، کیوں بھئی کیا؟ جراؔءت نے پڑھا :

سرسری ان سے ملاقات ہے گاہے گاہے صحبت غیر میں گاہے سرِ راہے گاہے​

سب نے تعریف کی اور مرزائے موصوف نے بھی تحسین و آفریں کے ساتھ پسند کیا۔ اسی پر ایک اور مطلع یاد آیا ہے۔ چاہے ظفرؔ کا کہو چاہے ذوقؔ کا سمجھو :

اس طرف بھی تمھیں لازم ہے نگاہے نگاہے دمبدم لحظہ بہ لحظہ نہیں گاہے گاہے​

نقل – کسی شخص نے اُس سے آ کر کہا کہ حضرت ایک شخص آپ کے تخلص پر آج ہنستے تھے۔ اور کہتے تھے کہ سوزگوز کیا تخلص رکھا ہے۔ ہمیں پسند نہیں۔ انھوں نے کہنے والے کا نام پوچھا۔ اس نے بعد بہت سے انکار اور اصرار کے بتایا۔ معلوم ہوا کہ شخص موصوف بھی مشاعرہ میں ہمیشہ آتے ہیں۔ میر سوزؔ مرحوم نے کہا، خیر کوئی مضائقہ نہیں۔ اب کے صحبت کے مشاعرہ میں تم مجھ سے برسر جلسہ یہی سوال کرنا۔ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا اور بآواز بلند پوچھا، حضرت اپ کا تخلص کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ صاھب قبلہ فقیر نے تخلص تو میر کیا تھا۔ مگر میر تقی صاحب نے پسند فرمایا۔ فقیر نے خیال کیا کہ ان کے کمال کے سامنے میرا نام نہ روشن ہو سکے گا۔ ناچار سوزؔ تخلص کیا، (شخص مذکور کی طرف اشارہ کر کے کہا)، سنتا ہوں یہ صاحب گوز کرتے ہیں۔ مشاعرہ میں عجیب قہقہہ اڑا۔ لکھنؤ میں ہزاروں آدمی مشاعرہ میں جمع ہوتے تھے، سب کے کان تک آواز نہ گئی تھی، کئی کئی دفعہ کہلوا کر سُنا۔ ادھر شخص موصوف اُدھر میر تقی صاحب، دونوں چپ بیٹھے سُنا کئے۔

انھوں نے علاوہ شاعری کے شعر خوانی کا ایسا طریقہ ایجاد کیا تھا کہ جس سے کلام کا لطف دوچند ہو جاتا تھا، شعر کو اس طرح ادا کرتے تھے کہ خود مضمون کی صورت بن جاتے تھے۔ اور لوگ بھی نقل اتارتے تھے۔ مگر وہ بات کہاں، آواز درد ناک تھی۔ شعر نہایت نرمی اور سوز و گداز سے پڑھتے تھے، اور اس میں اعضاء سے بھی مدد لیتے تھے۔ مثلاً شمع کا مضمون باندھتے تو پڑھتے وقت ایک ہاتھ سے شمع اور دوسرے کی اوٹ سے وہیں فانوس تیار کر کے بتاتے۔ بے دماغی یا ناراضی کا مضمون ہوتا تو خود بھی تیوری چڑھا کر وہیں بگڑ جاتے اور تم بھی خیال کر کے دیکھ لو، ان کے اشعار اپنے پڑھنے کے لئے ضرور حرکات و انداز کے طالب ہیں۔ چنانچہ یہ قطعہ بھی ایک خاص موقعہ پر ہوا تھا، اور عجیب انداز سے پڑھا گیا :

گئے گھر سے جو ہم اپنے سویرے سلام اللہ خانصاب کے ڈیرے

وہاں دیکھے کئے طفلِ پریرد ارے رے رے ارے رے رے ارے رے​

چوتھا مصرع پڑھتے پڑھتے وہیں زمین پر گر پڑے۔ گویا پریزادوں کو دیکھتے ہی دل بے قابو ہو گیا اور ایسے ہی نڈھال ہوئے کہ ارے رے رے کہتے کہتے غش کھا کر بے ہوش ہو گئے۔

ایک غزل میں قطعہ اس انداز سے سنایا تھا کہ سارے مشاعرہ کے لوگ گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے :

او مارِ سیاہ زلف سچ کہہ بتلا دے دل جہاں چُھپا ہو

کنڈلی تلے دیکھیو نہ ہووے کاٹا نہ ہفی؟ ترا بُرا ہو​

پہلے مصرع پر ڈرتے ڈرتے، بچکر جھکے، گویا کنڈلی تلے دیکھنے کو جھکے

ہیں، اور جس وقت کہا، کاٹا نہ ہفی۔ بس دفعتہً ہاتھ کو چھاتی تلے مسوس کر، ایسے بے اختیار لوٹ گئے کہ لوگ گھبرا کر سنبھالنے کو کھڑے ہو گئے۔ (صحیح افعی ہے۔ محاورہ میں ہفی کہتے ہیں)۔

نوازش ان کے شاگرد کا نام ہم لڑکپن میں سُنا کرتے تھے اور کچھ کہتے تھے تو وہی اس انداز میں کہتے تھے۔ مرزا رجب علی سرور صاحب فسانہ عجائب ان کے شاگرد تھے۔

مطلع سرِ دیوان

سرِ دیوان پر اپنے جو بسم اللہ میں لکھتا
بجائے مدِ بسم اللہ مدِ آہ میں لکھتا

محو کو تیرے نہیں ہے کچھ خیال خوب و زشت
ایک ہے اسکو ہوائے دوزخ و باغ بہشت

حاجیو! طوفِ دل مستاں کرو تو کچھ ملے
ورنہ کعبہ میں دھرا کیا ہے بغیر از سنگ و خشت

ناصحا گر یار ہے ہم سے خفا تو تجھ کو کیا
چین پیشانی ہی ہے اسکی ہماری سرنوشت

سوزؔ نے دامن جو ہیں پکڑا تو ووہیں چھین کر
کہنے لاگا، ان دنوں کچھ زور چل نکلا ہے ہشت

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


بھلہ رہے عشق تیری شوکت و شان
بھائی میرے تو اڑ گئے اوسان

ایک ڈر تھا کہ جی بچے نہ بچے
دوسرے غم نے کھائی میری جان

بس غم یار ایک دن دو دن
اس سے زیادہ نہ ہو جیو مہمان

نہ کہ بیٹھے ہو پاؤں پھیلا کر
اپنے گھر جاؤ خانہ آبادان

عارضی حُسن پر نہ ہو مغرور
میرے پیارے یہ گو ہے یہ میداں

پھرہے نے زلف و خال زیر زلف
چارون تو بھی کھیل لے چوگاں

اور تو اور کہہ کے دو (۲) باتیں
سوز کہلایا صاحب دیوان

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


مرا جان جاتا ہے یارو بچا لو
کلیجہ میں کانٹا گڑا ہے نکالو

نہ بھائی، مجھے زندگانی نہ بھائی
مجھے مار ڈالو، مجھے مار ڈالو

خدا کے لئے میرے وے ہمنشینو
وہ بانکا جو جاتا ہے اس کو بلا لو

اگر وہ خفا ہو کے کچھ گالیاں دے
تو دم کھا رہو کچھ نہ بولو نہ چالو

نہ آوے اگر وہ امھارے کہے سے
تو منت کرو دھیرے دھیرے منا لو

کہو ایک بندہ تمھارا مرے ہے
اسے جان کندن سے چل کر بچا لو

جلوں کی بُری آہ ہوتی ہے پیارے
تم اس سوز کی اپنے حق میں دعا لو

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


ہواؤں کو میں کہتا کہتا دِوانا
پر اس بے خبر نے کہا کچھ نہ مانا

کوئی دم تو بیٹھے رہو پاس میرے
میاں میں بھی چلتا ہوں ٹک رہ کے جانا

مجھے تو تمھاری خوشی چاہیئے ہے
تمھیں گو ہو منظور میرا کڑھانا

گیا ایک دن اس کے کوچے میں ناگاہ

لگا کہنے چل بھاگ رے پھر نہ آنا

کہاں ڈھونڈوں ہے ہے کدھر جاؤں یا رب
کہیں جاں کا پاتا نہیں ہوں ٹھکانا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


کہوں کس سے حکایت آشنا کی
سنو صاحب یہ باتیں ہیں خدا کی

دُعا دی تو لگا کہنے کہ در ہو
سُنی میں نے دُعا تیری دعا کی

کہا میں نے کہ کچھ خاطر میں ہو گا
تمھارے ساتھ جو میں نے وفا کی

گریباں میں ذرا منھ ڈال دیکھیو
کہ تم نے اس وفا پر ہم سے کیا کی

تو کہتا ہے کہ بس بس جونچ کر بند
وفا لایا ہے، دت تیری وفا کی

عدم سے زندگی لائی تھی بہلا
کہ دنیا جائے ہے اچھی فضا کی

جنازہ دیکھتے ہی سُن ہوا دل
کہ ہے ظالم! دغا کی رے دغا کی

تجھے اے سوزؔ کیا مشکل بنی ہے
جو ڈھونڈھے ہے سفارش اغنیا کی

کوئی مشکل نہیں رہتی ہے مشکل
محبت ہے اگر مشکل کُشا کی

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


دل کے ہاتھوں بہت خراب ہوا
جل گیا مل گیا کباب ہوا

اشک آنکھوں سے پل نہیں تھمتا
کیا بلا دل ہے دل میں آب ہوا

جن کو نت دیکھتے تھے اب ان کو
دیکھنا بھی خیال و خواب ہوا

یار اغیار ہو گیا ہیہات
کیا زمانے کا انقلاب ہوا

سارا دیوانِ زندگی دیکھا
ایک مصرعہ نہ انتخاب ہوا

سوزؔ بے ہوش گیا جب سے
تیری صحبت سے باریاب ہوا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


عاشق ہوا، اسیر ہوا مبتلا ہوا
کیا جانئے کہ دیکھتے ہی دل کو کیا ہوا

سر مشق ظلم تو نے کیا مجھ کو واہ واہ
تقصیر یہ ہوئی کہ ترا آشنا ہوا

دل تھا بساط میں سو کوئی اسکو لے گیا
اب کیا کروں گا اے میرے اللہ کیا ہوا

پاتا نہیں سراغ کروں کس طرف تلاش
دیوانہ دل کدھر کو گیا آہ کیا ہوا

سنتے ہی سوز کی خبر مرگ خوش ہوا
کہنے لگا کہ پنڈ تو چھوٹا بھلا ہوا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


آج اس راہ سے دل رُبا گذرا
جی پہ کیا جانیے کہ کیا گذرا

آہ ظالم نے کچھ نہ مانی بات
میں تو اپنا سا جی چلا گذرا

اب تو آیاز بس خدا کو مان
پچھلا شکوہ تھا سو گیا گذرا

رات کو نیند ہے نہ دن کو چین
ایسے جینے سے اے خدا گذرا

سوزؔ کے قتل پر کمر مت باندھ
ایسا جانا ہے کیا گیا گذرا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


یار گر صاحبِ وفا ہوتا
کیوں میاں جان! کیا مزا ہوتا

ضبط سےمیرے تھم رہا ہے سر شک
ورنہ اب تک تو بہہ گیا ہوتا

جان کے کیا کروں بیان احسان
یہ نہ ہوتا تو مر گیا ہوتا

روٹھنا تب تجھے مناسب تھا
جو تجھے میں نے کچھ کہا ہوتا

ہاں میاں! جانتا تو میری قدر
جو کہیں تیرا دل لگا ہوتا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


بلبل کہیں نہ جائیو زنہار دیکھنا
اپنے ہی من میں پھولے گی گلزار دیکھنا

نازک ہے دل نہ ٹھیس لگانا اسے کہیں
غم سے بھرا ہے اے مرے غمخوار دیکھنا

شکوہ عبث ہے یار کے جوروں کا ہر گھڑی
غیروں کے ساتھ شوق سے دیدار دیکھنا

سوداؔ کی بات بھول گئی سُوز تجھ کو حیف
جو کچھ خدا دکھا دے سو لاچار دیکھنا

کچھ کہا تو قاصد آتا ہے وہ ماہ
اَلحَمدُ للہ اَلحَمدُ للہ

جھوٹے کے منہ میں آگے کہوں کیا
استغفر اللہ استغفر اللہ

یار آتا ہے ترے یار کی ایسی تیسی
آزماتا ہے ترے پیار کی ایسی تیسی

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*