آتا ہے یہی جی میں فریاد کروں روؤں
آتا ہے یہی جی میں فریاد کروں روؤں
رونے ہی سے ٹک اپنا دل شاد کروں روؤں
کس واسطے بیٹھا ہے چپ اتنا تو اے ہم دم
کیا میں ہی کوئی نوحہ بنیاد کروں روؤں
یوں دل میں گزرتا ہے جا کر کسی صحرا میں
خاطر کو ٹک اک غم سے آزاد کروں روؤں
اس واسطے فرقت میں جیتا مجھے رکھا ہے
یعنی میں تری صورت جب یاد کروں روؤں
اے مصحفیؔ آتا ہے یہ دل میں کہ اب میں بھی
رونے میں تجھے اپنا استاد کروں روؤں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |