Author:غلام علی ہمدانی مصحفی
غلام علی ہمدانی مصحفی (1748 - 1824) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- آئے ہو تو یہ حجاب کیا ہے
- رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا
- خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا
- جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا
- لوگ کہتے ہیں محبت میں اثر ہوتا ہے
- اس قدر بھی تو مری جان نہ ترسایا کر
- آنکھوں کو پھوڑ ڈالوں یا دل کو توڑ ڈالوں
- عاشق تو ملیں گے تجھے انساں نہ ملے گا
- اول تو ترے کوچے میں آنا نہیں ملتا
- عقل گئی ہے سب کی کھوئی کیا یہ خلق دوانی ہے
- آساں نہیں ہے تنہا در اس کا باز کرنا
- گرچہ اے دل عاشق شیدا ہے تو
- جب کہ بے پردہ تو ہوا ہوگا
- آنا ہے یوں محال تو اک شب بہ خواب آ
- وہ چاندنی رات اور وہ ملاقات کا عالم
- جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے
- وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو
- آج خوں ہو کے ٹپک پڑنے کے نزدیک ہے دل
- غم دل کا بیان چھوڑ گئے
- اب مجھ کو گلے لگاؤ صاحب
- رخ زلف میں بے نقاب دیکھا
- ترا شوق دیدار پیدا ہوا ہے
- آتا ہے کس انداز سے ٹک ناز تو دیکھو
- کچھ اپنی جو حرمت تجھے منظور ہو اے شیخ
- اہل دل گر جہاں سے اٹھتا ہے
- نہ پوچھ عشق کے صدمے اٹھائے ہیں کیا کیا
- کبھی تو بیٹھوں ہوں جا اور کبھی اٹھ آتا ہوں
- اس عشق و جنوں میں نہ گریبان کا ڈر ہے
- آہ ہم راز کون ہے اپنا
- پہلو میں رہ گیا یوں یہ دل تڑپ تڑپ کر
- اے شب ہجر کہیں تیری سحر ہے کہ نہیں
- اے عشق تیری اب کے وہ تاثیر کیا ہوئی
- ہم بھی ہیں ترے حسن کے حیران ادھر دیکھ
- آج پلکوں کو جاتے ہیں آنسو
- یار ہیں چیں بر جبیں سب مہرباں کوئی نہیں
- کہہ گیا کچھ تو زیر لب کوئی
- دل چرانا یہ کام ہے تیرا
- ہم تو اس کوچے میں گھبرا کے چلے آتے ہیں
- دل کو یہ اضطرار کیسا ہے
- آہ دیکھی تھی میں جس گھر میں پری کی صورت
- غزل کہنے کا کس کو ڈھب رہا ہے
- دیکھ اس کو اک آہ ہم نے کر لی
- ان آنکھوں سے آب کچھ نہ نکلا
- غصے کو جانے دیجے نہ تیوری چڑھائیے
- یہ آنکھیں ہیں تو سر کٹا کر رہیں گی
- دلی ہوئی ہے ویراں سونے کھنڈر پڑے ہیں
- آتا ہے یہی جی میں فریاد کروں روؤں
- معشوقۂ گل نقاب میں ہے
- ترسا نہ مجھ کو کھینچ کے تلوار مار ڈال
- کب صبا سوئے اسیران قفس آتی ہے
- بیٹھے بیٹھے جو ہم اے یار ہنسے اور روئے
- اول تو یہ دھج اور یہ رفتار غضب ہے
- تو دیکھے تو اک نظر بہت ہے
- بحث اس کی میری وقت ملاقات بڑھ گئی
- تجھ سے گر وہ دلا نہیں ملتا
- زلفوں کا بکھرنا اک تو بلا، عارض کی جھلک پھر ویسی ہی
- گھر میں باشندے تو اک ناز میں مر جاتے ہیں
- نہ وہ وعدۂ سر راہ ہے نہ وہ دوستی نہ نباہ ہے
- کہتی ہے نماز صبح کی بانگ
- ازبسکہ جی ہے تجھ بن بیزار زندگی سے
- یوں چلتے ہیں لوگ راہ ظالم
- خواریاں بدنامیاں رسوائیاں
- آنکھیں ہیں جوش اشک سے پنگھٹ
- سدا فکر روزی ہے تا زندگی ہے
- دل سینے میں بیتاب ہے دل دار کدھر ہے
- جیتا رہوں کہ ہجر میں مر جاؤں کیا کروں
- کھیل جاتے ہیں جان پر عاشق
- ابھی اپنے مرتبۂ حسن سے میاں با خبر تو ہوا نہیں
- دل خوش نہ ہوا زلف پریشاں سے نکل کر
- ہم دل کو لیے بر سر بازار کھڑے ہیں
- منہ چھپاؤ نہ تم نقاب میں جان
- بچا گر ناز سے تو اس کو پھر انداز سے مارا
- ہر روز ہمیں گھر سے صحرا کو نکل جانا
- مسلخ عشق میں کھنچتی ہے خوش اقبال کی کھال
- بعد مردن کی بھی تدبیر کیے جاتا ہوں
- ہو چکا ناز منہ دکھائیے بس
- کدھر جائیے اور کہاں بیٹھیے
- ہے ماہ کہ آفتاب کیا ہے
- زلف اگر دل کو پھنسا رکھتی ہے
- مذہب کی میرے یار اگر جستجو کریں
- جو دم حقے کا دوں بولے کہ ”میں حقا نہیں پیتا”
- جب گھر سے وہ بعد ماہ نکلے
- لگتے ہیں نت جو خوباں شرمانے باؤلے ہیں
- اک حرف کن میں جس نے کون و مکاں بنایا
- دریاے عاشقی میں جو تھے گھاٹ گھاٹ سانپ
- ٹکڑا جہاں گرا جگر چاک چاک کا
- حال دل بے قرار ہے اور
- پردہ اٹھا کے مہر کو رخ کی جھلک دکھا کہ یوں
- بلبلو باغباں کو کیوں چھیڑا
- اس نازنیں کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں
- کھڑا نہ سن کے صدا میری ایک یار رہا
- اس رشک مہ کی یاد دلاتی ہے چاندنی
- پڑھ نہ اے ہم نشیں وصال کا شعر
- بات کو میری الگ ہو کے نہ شرماؤ سنو
- بکتے ہیں شہر میں گل بے خار ہر طرف
- نہیں کرتی اثر فریاد میری
- عاشق کہیں ہیں جن کو وہ بے ننگ لوگ ہیں
- کیوں کہ کہیے کہ ادا بندی ہے
- کبھو تک کے در کو کھڑے رہے کبھو آہ بھر کے چلے گئے
- کھا لیتے ہیں غصے میں تلوار کٹاری کیا
- بے لاگ ہیں ہم ہم کو رکاوٹ نہیں آتی
- یا تھی ہوس وصال دن رات
- کپڑے بدل کے آئے تھے آگ مجھے لگا گئے
- چھریاں چلیں شب دل و جگر پر
- بنایا ایک کافر کے تئیں اس دم میں دو کافر
- عمر پس ماندہ کچھ دلیل سی ہے
- تجھ بن تو کبھی گل کے تئیں بو نہ کروں میں
- میرؔ کیا چیز ہے سوداؔ کیا ہے
- کل تو کھیلے تھا وہ گلی ڈنڈا
- مدت سے ہوں میں سر خوش صہبائے شاعری
- کیا چمکے اب فقط مری نالے کی شاعری
- شعر کیا جس میں نوک جھوک نہ ہو
- مخلوق ہوں یا خالق مخلوق نما ہوں
- ایسے ڈرے ہیں کس کی نگاہ غضب سے ہم
- اپنا رفیق و آشنا غیر خدا کوئی نہیں
- تھا جو شعر راست سرو بوستان ریختہ
- کیا کریں جا کے گلستاں میں ہم
- جب تک کہ تری گالیاں کھانے کے نہیں ہم
- رکھیں ہیں جی میں مگر مجھ سے بد گمانی آپ
- کام میں اپنے ظہور حق ہے آپ
- کون اس باغ سے اے باد صبا جاتا ہے
- سو بار تم تو سامنے آ کر چلے گئے
- چلے لے کے سر پر گناہوں کی گٹھری
- میاں صبر آزمائی ہو چکی بس
- کیجیے ظلم سزا وار جفا ہم ہی ہیں
- جب نبی صاحب میں کوہ و دشت سے آئی بسنت
- سوتے ہیں ہم زمیں پر کیا خاک زندگی ہے
- وحشت ہے میرے دل کو تو تدبیر وصل کر
- کبریائی کی ادا تجھ میں ہے
- جو پری بھی روبرو ہو تو پری کو میں نہ دیکھوں
- سر اپنے کو تجھ پر فدا کر چکے ہم
- پانو میں قیس کے زنجیر بھلی لگتی ہے
- جلتا ہے جگر تو چشم نم ہے
- غم ترا دل میں مرے پھر آگ سلگانے لگا
- گریہ دل کو نہ سوے چشم بہاؤ
- ہوں شیخ مصحفی کا میں حیران شاعری
- آتش غم میں بس کہ جلتے ہیں
- خریدار اپنا ہم کو جانتے ہو
- موج نکہت کی صبا دیکھ سواری تیار
- سینہ ہے پرزے پرزے جائے رفو نہیں یاں
- تختۂ آب چمن کیوں نہ نظر آوے سپاٹ
- اس نے کر وسمہ جو فندق پہ جمائی مہندی
- باغ تھا اس میں آشیاں بھی تھا
- صحبت ہے ترے خیال کے ساتھ
- فہمیدہ ہے جو تجھ کو تو فہمید سے نکل
- اس بت کو نہیں ہے ڈر خدا سے
- شعر دولت ہے کہاں کی دولت
- خدا کی قسم پھر تو کیا خیر ہووے
- شب ہجراں تھی میں تھا اور تنہائی کا عالم تھا
- گر اور بھی مری تربت پہ یار ٹھہرے گا
- سخن میں کامرانی کر رہا ہوں
- دور سے مجھ کو نہ منہ اپنا دکھاؤ جاؤ
- رات کرتا تھا وہ اک مرغ گرفتار سے بحث
- لیے آدم نے اپنے بیٹے پانچ
- دل میں ہے اس کے مدعی کا عشق
- شب ہجر صحرائے ظلمات نکلی
- نظر کیا آئے ذات حق کسی کو
- میں پہروں گھر میں پڑا دل سے بات کرتا ہوں
- غیر کے گھر تو نہ رہ رات کو مہمان کہیں
- مشتاق ہی دل برسوں اس غنچہ دہن کا تھا
- سراسر خجلت و شرمندگی ہے
- تصور تیری صورت کا مجھے ہر شب ستاتا ہے
- از بس بھلا لگے ہے تو میرے یار مجھ کو
- وہ در تلک آوے نہ کبھی بات کی ٹھہرے
- سر شام اس نے منہ سے جو رخ نقاب الٹا
- گر ابر گھرا ہوا کھڑا ہے
- جانے دے ٹک چمن میں مجھے اے صبا سرک
- جی سے مجھے چاہ ہے کسی کی
- رو کے ان آنکھوں نے دریا کر دیا
- بھری آتی ہیں ہر گھڑی آنکھیں
- یارب مری اس بت سے ملاقات کہیں ہو
- دیکھ کر اک جلوے کو تیرے گر ہی پڑا بے خود ہو موسیٰ
- کب لگ سکے جفا کو اس کی وفائے عالم
- ترے منہ چھپاتے ہی پھر مجھے خبر اپنی کچھ نہ ذری رہی
- برق رخسار یار پھر چمکی
- کی آہ ہم نے لیکن اس نے ادھر نہ دیکھا
- یہ دل وہ شیشہ ہے جھمکے ہے وہ پری جس میں
- نسیم صبح چمن سے ادھر نہیں آتی
- وہی راتیں آئیں وہی زاریاں
- کب خوں میں بھرا دامن قاتل نہیں معلوم
- کیا دخل کسی سے مرض عشق شفا ہو
- کس راہ گیا لیلیٰ کا محمل نہیں معلوم
- کیا کھینچے ہے خود کو دور اللہ
- میری سی تو نے گل سے نہ گر اے صبا کہی
- ہمیں نت اسیر بلا چاہتا ہے
- وہیں تھے شاخ گل پر گل جہاں جمع
- ظلمات شب ہجر کی آفات ہے اور تو
- تم بانکپن یہ اپنا دکھاتے ہو ہم کو کیا
- اے غم زدہ ضبط کر کے چلنا
- دم غنیمت ہے کہ وقت خوش دلی ملتا نہیں
- اس گلی میں جو ہم کو لائے قدم
- شب میں واں جاؤں تو جاؤں کس طرح
- ہر چند کہ ہو مریض محتاط
- محبت نے کیا کیا نہ آنیں نکالیں
- زخم ہے اور نمک فشانی ہے
- مکھ پھاٹ منہ پہ کھائیں گے تلوار ہو سو ہو
- ہر چند کہ وہ جواں نہیں ہم
- بند بھی آنکھوں کو ذری کیجیے
- وہ آرزو نہ رہی اور وہ مدعا نہ رہا
- یادگار گزشتگاں ہیں ہم
- نصیبوں سے کوئی گر مل گیا ہے
- مجھ سے اک بات کیا کیجئے بس
- لینے لگے جو چٹکی یک بار بیٹھے بیٹھے
- کیا میں جاتا ہوں صنم چھٹ ترے در اور کہیں
- زیر نقاب آب گوں ہائے رے ان کی جالیاں
- چشم نے کی گوہر افشانی صریح
- نے بت ہے نہ سجدہ ہے نے بادہ نہ مستی ہے
- پھر یہ کیسا ادھیڑ بن سا لگا
- طور پر اپنے کسی دن بھی خور و خواب ہے یاں
- پریشاں کیوں نہ ہو جاوے نظارا
- کبھی وفائیں کبھی بے وفائیاں دیکھیں
- دلبر کی تمنائے بر دوش میں مر جائے
- گر ہو طمنچہ بند وہ رشک فرنگیاں
- وہ چہچہے نہ وہ تری آہنگ عندلیب
- تمہاری اور مری کج ادائیاں ہی رہیں
- ادھر سے جھانکتے ہیں گہہ ادھر سے دیکھ لیتے ہیں
- اس گوشۂ عزلت میں تنہائی ہے اور میں ہوں
- ہر چند امردوں میں ہے اک راہ کا مزا
- پٹرے دھرے ہیں سر پر دریا کے پاٹ والے
- رات کے رہنے کا نہ ڈر کیجیے
- شب شوق لے گیا تھا ہمیں اس کے گھر تلک
- بس ہم ہیں شب اور کراہنا ہے
- دوکان مے فروش پہ گر آئے محتسب
- جب سے صانع نے بنایا ہے جہاں کا بہروپ
- شب ہم کو جو اس کی دھن رہی ہے
- اس کے کوچے کی طرف تھا شب جو دنگا آگ کا
- نے شہریوں میں ہیں نہ بیابانیوں میں ہم
- کہیں مغز اس کے میں صبح دم تری بوئے زلف رسا گئی
- اس گلشن پر خار سے مانند صبا بھاگ
- دل کے نگر میں چار طرف جب غم کی دہائی بیٹھ گئی
- یارب آباد ہوویں گھر سب کے
- خوش طالعی میں شمس و قمر دونوں ایک ہیں
- طرح اولے کی جو خلقت میں ہم آبی ہوتے
- ایک تو بیٹھے ہو دل کو مرے کھو اور سنو
- تم گرم ملے ہم سے نہ سرما کے دنوں میں
- سیراب آب جو سے قدح اور قدح سے ہم
- سدھاری قوت دل تاب اور طاقت سے کہہ دیجو
- چکھی نہ جس نے کبھی لذت سنان نگاہ
- در تلک جانے کی ہے اس کے مناہی ہم کو
- بزم سرود خوباں میں گو مردنگیں شاہین بجیں
- کل پتنگ اس نے جو بازار سے منگوا بھیجا
- نہ پیارے اوپر اوپر مال ہر صبح مسا چکھو
- جاتے جاتے راہ میں اس نے منہ سے اٹھایا جوں ہی پردا
- نے زخم خوں چکاں ہوں نہ حلق بریدہ ہوں
- جوں ہی زنجیر کے پاس آئے پاؤں
- تم بھی آؤگے مرے گھر جو صنم کیا ہوگا
- منہ میں جس کے تو شب وصل زباں دیتا ہے
- بوئیے مزرع دل میں جو عنایات کے بیج
- ہر چند کہ بات اپنی کب لطف سے خالی ہے
- دل میں مرغان چمن کے تو گماں اور ہی ہے
- جوں ہی زنجیر کے پاس آئے پاؤں
- تم بھی آؤگے مرے گھر جو صنم کیا ہوگا
- منہ میں جس کے تو شب وصل زباں دیتا ہے
- بوئیے مزرع دل میں جو عنایات کے بیج
- ہر چند کہ بات اپنی کب لطف سے خالی ہے
- دل میں مرغان چمن کے تو گماں اور ہی ہے
- در تلک آ کے ٹک آواز سنا جاؤ جی
- اس مرگ کو کب نہیں میں سمجھا
- لیکھے کی یاں بہی نہ زر و مال کی کتاب
- جلوہ گر اس کا سراپا ہے بدن آئنے میں
- نخل لالے جا جب زمیں سے اٹھا
- گر ہم سے نہ ہو وہ دل ستاں ایک
- یک نالۂ عاشقانہ ہے یاں
- پس قافلہ جو غبار تھا کوئی اس میں ناقہ سوار تھا
- نرمیٔ بالش پر ہم کو نہیں بھاتی ہے
- ہر چند بہار و باغ ہے یہ
- ناتوانی کے سبب یاں کس سے اٹھا جائے ہے
- ایسا بھی کوئی کرے ہے خلل ملک دیں میں بت
- او میاں بانکے ہے کہاں کی چال
- یہ جو اپنے ہاتھ میں دامن سنبھالے جاتے ہیں
- اس کے خط میں جو لکھا غیر کا میں نام الٹا
- جُو پھرا کہ اس نے منہ کو بہ قفا نقاب الٹا
- یہ دم اس کہ وقت رخصت بہ صد اضطراب الٹا
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |