آتش باغ ایسی بھڑکی ہے کہ جلتی ہے ہوا
آتش باغ ایسے بھڑکی ہے کہ جلتی ہے ہوا
کوچۂ گل سے دھواں ہو کر نکلتی ہے ہوا
سوز وحشت میں دھویں کی شکل کاہش ہے مجھے
میں ہوا کھاتا نہیں مجھ کو نگلتی ہے ہوا
دم اگر نکلا بدن سے پھر بڑی تسکین ہے
خاک پتھر ہو کے جمتی ہے جو ٹلتی ہے ہوا
گریۂ عشاق سے کیچڑ ہے ایسے جا بجا
تھام کر دیوار و در گلیوں میں چلتی ہے ہوا
جا بجا مجھ کو لیے پھرتی ہے دنیا کی ہوس
بیٹھ جاتا ہے بگولا جب نکلتی ہے ہوا
گلشن عالم کی نیرنگی سے ہوتا ہے یقیں
پھر شگوفہ پھولتا ہے پھر بدلتی ہے ہوا
ہیں بھی آہیں تو منہ سے باہر آتا ہے جگر
ذرے کو روزن سے اکثر لے نکلتی ہے ہوا
نازکی میں شاخ گل ہے سرو بالا یار کا
جھونکے لیتا ہے جو آہستہ بھی چلتی ہے ہوا
خاک اڑتی ہی جو اس کے پاؤں سے گل گشت میں
پھولوں کے منہ پر بجائے غازہ ملتی ہے ہوا
دیکھیے چل کر ذرا کیفیت جوش بہار
جھومتے ہیں پیڑ گر گر کر سنبھلتی ہے ہوا
نارسائی دیکھنا اڑتا ہے جب میرا غبار
یار کے کوٹھے کے کانس سے پھسلتی ہے ہوا
گرمیوں میں سیر گلزاروں کی بھاتی ہے مجھے
ہر قدم پر پنکھیا پھولوں کی جھلتی ہے ہوا
خار کہتے ہیں اٹھا کر انگلیاں گل کی طرف
پھول جاتے ہیں وہ کیسا جن کو پھلتی ہے ہوا
سرو قرطاس مقرض ہوں میں اس گلزار میں
خاک میں پانی ملاتا ہے مسلتی ہے ہوا
بحرؔ پنکھا ہاتھ سے رکھ دو نہایت زار ہوں
موج دریا کی طرح مجھ کو کچلتی ہے ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |