Author:امداد علی بحر
امداد علی بحر (1810 - 1878) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- آہوں سے ہوں گے گنبد ہفت آسماں خراب
- روشن ہزار چند ہیں شمس و قمر سے آپ
- اب مرنا ہے اپنے خوشی ہے جینے سے بے زاری ہے
- نہ کہہ حق میں بزرگوں کی کڑی بات
- وقت آخر ہمیں دیدار دکھایا نہ گیا
- غضب ہے دیکھنے میں اچھی صورت آ ہی جاتی ہے
- ایسی کوئل نہ پپیہے کی ہے پیاری آواز
- کبھی تو دیکھے ہماری عرق فشانی دھوپ
- بولئے کرتا ہوں منت آپ کی
- دوستو دل کہیں زنہار نہ آنے پائے
- خدا پرست ہوئے ہم نہ بت پرست ہوئے
- سب حسینوں میں وہ پیارا خوب ہے
- جب دست بستہ کی نہیں عقدہ کشا نماز
- ایسے پر نور و ضیا یار کے رخسارے ہیں
- تارے گنتے رات کٹتی ہی نہیں آتی ہے نیند
- یہ دل ہے تو آفت میں پڑتے رہیں گے
- نفس سرکش کو قتل کر اے دل
- میں اس بت کا وصل اے خدا چاہتا ہوں
- میں سیہ رو اپنے خالق سے جو نعمت مانگتا
- دم مرگ بالیں پر آیا تو ہوتا
- افشا ہوئے اسرار جنوں جامہ دری سے
- گردش چرخ سے قیام نہیں
- چننے نہ دیا ایک مجھے لاکھ جھڑے پھول
- خورشید فراق میں تپاں ہے
- سینہ کوبی کر چکے غم کر چکے
- جس کو چاہو تم اس کو بھر دو
- کیا سلام جو ساقی سے ہم نے جام لیا
- جاتے ہے خانقاہ سے واعظ سلام ہے
- جذب الفت نے دکھایا اثر اپنا الٹا
- میرے آگے تذکرہ معشوق و عاشق کا برا
- بغیر یار گوارا نہیں کباب شراب
- آتش باغ ایسے بھڑکی ہے کہ جلتی ہے ہوا
- وہ رشک مہر و قمر گھات پر نہیں آتا
- ساقی ترے بغیر ہے محفل سے دل اچاٹ
- گیا سب اندوہ اپنے دل کا تھمے اب آنسو قرار آیا
- ہم زاد ہے غم اپنا شاداں کسے کہتے ہیں
- چار دن ہے یہ جوانی نہ بہت جوش میں آ
- دوپٹا وہ گلنار دکھلا گئے
- آتش باغ ایسی بھڑکی ہے کہ جلتی ہے ہوا
- ہم ناقصوں کے دور میں کامل ہوئے تو کیا
- جب کہ سر پر وبال آتا ہے
- ہم آج کل ہیں نامہ نویسی کی تاؤ پر
- دکھاتی ہے دل پھر محبت کسی کی
- آشنا کوئی باوفا نہ ملا
- محبوب خدا نے تجھے نایاب بنایا
- محرم کے ستارے ٹوٹتے ہیں
- سرو میں رنگ ہے کچھ کچھ تری زیبائی کا
- آزردہ ہو گیا وہ خریدار بے سبب
- مر گئے پر بھی نہ ہو بوجھ کسی پر اپنا
- سیر اس سبزۂ عارض کی ہے دشوار بہت
- خورشید رخوں کا سامنا ہے
- خوب رویان جہاں چاند کی تنویریں ہیں
- قدرداں کوئی نہ اسفل ہے نہ اعلیٰ اپنا
- کبھی دیکھیں جو روئے یار درخت
- تیری ہر اک بات ہے نشتر نہ چھیڑ
- ہمیں ناشاد نظر آتے ہیں دل شاد ہیں سب
- داغ بیعانہ حسن کا نہ ہوا
- بشر روز ازل سے شیفتہ ہے شان و شوکت کا
- بتو خدا پہ نہ رکھو معاملہ دل کا
- ہر طرف مجمع عاشقاں ہے
- وصل میں ذکر غیر کا نہ کرو
- فرقت کی آفت برے دن کاٹنا سال ہے
- جڑاؤ چوڑیوں کے ہاتھوں میں پھبن کیا خوب
- بد طالعی کا علاج کیا ہو
- گیا جوانی کا ساتھ سب کچھ وہ گرمئ عشق اب کہاں ہے
- ہم خزاں کی اگر خبر رکھتے
- کس سے ہوں داد خواہ کوئی دادرس نہیں
- خدا پرست ہوئے نہ ہم بت پرست ہوئے
- ایفائے وعدہ آپ سے اے یار ہو چکا
- پھل آتے ہیں پھول ٹوٹتے ہیں
- جلوۂ ارباب دنیا دیکھیے
- میں گلا تم سے کروں اے یار کس کس بات کا
- نہیں ہونے کا یہ خون جگر بند
- آراستگی بڑی جلا ہے
- شور ہے اس سبزۂ رخسار کا
- دل سے سمجھوں گا اسے دشمن جاں ہونے دو
- شکوہ نہ رقیبوں سے نہ جاناں سے گلا ہے
- امور خیر میں کچھ اہتمام ہو نہ سکا
- وفا میں برابر جسے تول لیں گے
- یہ کیا کہا مجھے او بد زباں بہت اچھا
- آبلہ خار سر مژگاں نے پھوڑا سانپ کا
- چور صدموں سے ہو بعید نہیں
- اس طرح زیست بسر کی کوئی پرساں نہ ہوا
- خوب رو سب ہیں مگر حورا شمائل ایک ہے
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |