آتش حسن سے اک آب ہے رخساروں میں

آتش حسن سے اک آب ہے رخساروں میں
by مضطر خیرآبادی

آتش حسن سے اک آب ہے رخساروں میں
اے تری شان کہ پانی بھی ہے انگاروں میں

دم نکل جائے گا رخصت کا ابھی نام نہ لو
تم جو اٹھے تو بٹھا دوں گا عزاداروں میں

جا کے اب نار جہنم کی خبر لے زاہد
ندیاں بہہ گئیں اشکوں کی گنہ گاروں میں

نوبتیں نالۂ رخصت کا پتا دیتی ہیں
ماتم عشق کی آواز ہے نقاروں میں

مجھ کو اس درد کی تھوڑی سی کسک ہے درکار
جو دوا بن کے بٹا ہے ترے بیماروں میں

بے طلب اس نے دکھایا رخ روشن مضطرؔ
نام موسیٰ کا نہیں اس کے طلب گاروں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse