Author:مضطر خیرآبادی
مضطر خیرآبادی (1865 - 1927) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
- تو مجھے کس کے بنانے کو مٹا بیٹھا ہے
- علاج درد دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا
- انہیں لوگوں کی بدولت یہ حسیں اچھے ہیں
- اگر تم دل ہمارا لے کے پچھتائے تو رہنے دو
- آپ کیوں بیٹھے ہیں غصے میں مری جان بھرے
- آرزو دل میں بنائے ہوئے گھر ہے بھی تو کیا
- وفا کیا کر نہیں سکتے ہیں وہ لیکن نہیں کرتے
- سہیں کب تک جفائیں بے وفائی دیکھنے والے
- پوچھا کہ وجہ زندگی بولے کہ دل داری مری
- اس سے کہہ دو کہ وہ جفا نہ کرے
- اس بات کا ملال نہیں ہے کہ دل گیا
- کسی کے سنگ در سے اپنی میت لے کے اٹھیں گے
- کسی بت کی ادا نے مار ڈالا
- اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے
- حوصلہ امتحان سے نکلا
- سب شریک صدمہ و آزار کچھ یوں ہی سے ہیں
- جدائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے
- اتنے اچھے ہو کہ بس توبہ بھلی
- فصل گل بھی ترس کے کاٹی ہے
- جب کہا میں نے کہ مر مر کے بچے ہجر میں ہم
- انہوں نے کیا نہ کیا اور کیا نہیں کرتے
- محبت کو کہتے ہو برتی بھی تھی
- میرے محبوب تم ہو یار تم ہو دل ربا تم ہو
- آتش حسن سے اک آب ہے رخساروں میں
- دل کا معاملہ جو سپرد نظر ہوا
- مرے ارمان مایوسی کے پالے پڑتے جاتے ہیں
- رخ کسی کا نظر نہیں آتا
- یہ تم بے وقت کیسے آج آ نکلے سبب کیا ہے
- اب اس سے بڑھ کے کیا ناکامیاں ہوں گی مقدر میں
- دل لے کے حسینوں نے یہ دستور نکالا
- چاہت کی نظر آپ سے ڈالی بھی گئی ہے
- عمر کاٹی بتوں کی آڑوں میں
- دعا سے کچھ نہ ہوا التجا سے کچھ نہ ہوا
- بیٹھے ہوئے ہیں ہم خود آنکھوں میں دھول ڈالے
- وقت آخر یاد ہے ساقی کی مہمانی مجھے
- جنوں کے جوش میں انسان رسوا ہو ہی جاتا ہے
- ہم نے پائی لذت دیدار لیکن دور سے
- ہجر میں ہو گیا وصال کا کیا
- عیش کے رنگ ملالوں سے دبے جاتے ہیں
- اپنے عہد وفا کو بھول گئے
- نہ بلوایا نہ آئے روز وعدہ کر کے دن کاٹے
- وہ قضا کے رنج میں جان دیں کہ نماز جن کی قضا ہوئی
- ہم عمر کے ساتھ ہیں سفر میں
- تیری رنگت بہار سے نکلی
- رہ کے پردے میں رخ پر نور کی باتیں نہ کر
- جو پوچھا منہ دکھانے آپ کب چلمن سے نکلیں گے
- دم آخر مصیبت کاٹ دو بہر خدا میری
- مائل صحبت اغیار تو ہم ہیں تم کون
- دور کیوں جاؤں یہیں جلوہ نما بیٹھا ہے
- جفا سے وفا مسترد ہو گئی
- محبت غیر سے کی ہے تو میرا مدعا لے لو
- جب کہا تیر تری آنکھ نے اکثر مارا
- اک پردہ نشیں کی آرزو ہے
- پردۂ درد میں آرام بٹا کرتے ہیں
- کیسے دل لگتا حرم میں دور پیمانہ نہ تھا
- غرور الفت کی طرز نازش عجب کرشمے دکھا رہی ہے
- محبت کر کے لاکھوں رنج جھیلے بیکلی پائی
- محبت ابتدا میں کچھ نہیں معلوم ہوتی ہے
- رواں رہتا ہے کس کی موج میں دن رات تو پانی
- جان یہ کہہ کے بت ہوش ربا نے لے لی
- مکتب کی عاشقی بھی تاریخ زندگی تھی
- محبت باعث نا مہربانی ہوتی جاتی ہے
- جو مے دل سے پئے کوئی تو پھر رخنے نہیں رہتے
- گواہ وصل عدو سر جھکا کے دیکھ نہ لو
- مخالف ہے صبائے نامہ بر کچھ اور کہتی ہے
- میرے ارماں وہ سدھارے یوں کے یونہیں رہ گئے
- دل دادگان حسن سے پردا نہ چاہئے
- جب کہا میں ہوں ترے عشق میں بدنام کہ تو
- زیر زمیں رہوں کہ تہہ آسماں رہوں
- ہم وفا کرتے ہیں ہم پر جور کوئی کیوں کرے
- کیا کہوں حسرت دیدار نے کیا کیا کھینچا
- اک نقش خیال رو بہ رو ہے
Some or all works by this author are now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |