آتش عشق بلا آگ لگائے نہ بنے
آتش عشق بلا آگ لگائے نہ بنے
اور ہم اس کو بجھائیں تو بجھائے نہ بنے
رنگ رخ اڑنے پہ آج جائے تو روکے نہ رکے
لاکھ وہ راز چھپائیں تو چھپائے نہ بنے
کیا مزہ ہو نہ رہے یاد جو انداز جفا
میں کہوں بھی کہ ستاؤ تو ستائے نہ بنے
خود وفا ہے مری شاہد کہ وفادار ہوں میں
لاکھ تم دل سے بھلاؤ تو بھلائے نہ بنے
دل کے ہر ذرہ میں ہے سوز محبت کی نمود
خاک میں ان کو ملاؤں تو ملائے نہ بنے
راہ الفت نے کچھ ایسی مری صورت بدلی
دامن دشت چھپائے تو چھپائے نہ بنے
دل کو اب تاب تلافی و مداوا ابھی نہیں
چارہ گر آئے تو احسان اٹھائے نہ بنے
کوئی خاکہ مری تصویر کا کھینچے تو سہی
کھنچ بھی جائے کوئی نقشہ تو مٹائے نہ بنے
موت قابو کی نہیں اور نہ ٹھکانا اس کا
کوئی وقت اس پہ بھی آئے کہ بنائے نہ بنے
ایسے ڈھب سے ہو گلا ان کی ستم کا اے شوقؔ
بات کچھ چاہیں بنانی تو بنائے نہ بنے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |