آتش غم میں بس کہ جلتے ہیں
آتش غم میں بس کہ جلتے ہیں
شمع ساں استخواں پگھلتے ہیں
وہی دشت اور وہی گریباں چاک
جب تلک ہاتھ پانو چلتے ہیں
دیکھ تیری صفائے صورت کو
آئینے منہ سے خاک ملتے ہیں
جوشش اشک ہے وہ آنکھوں میں
جیسے اس سے کنویں ابلتے ہیں
دیکھ عارض کو تیرے گلشن میں
سیکڑوں رنگ گل بدلتے ہیں
شوخ چشمی بتاں کی مجھ سے نہ پوچھ
کہ یہ نظروں میں دل کو چھلتے ہیں
دیکھیو شیخ جی کی چال کو ٹک
اب کوئی دم میں یہ پھسلتے ہیں
بن لیے کام دل کا اس کو سے
مصحفیؔ ہم کوئی نکلتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |