آج صیاد نے بھولے سے چمن دکھلایا
آج صیاد نے بھولے سے چمن دکھلایا
میری تقدیر نے پھر مجھ کو وطن دکھلایا
عین مستی میں جو وہ شوخ ہوا سر کہ جبیں
یہ اڑے ہوش کہ نشے نے ہرن دکھلایا
جھٹ پٹا وقت ہوا موت کا ساماں شب وصل
سحر ہجر کا مردوں نے کفن دکھلایا
چاند کو دیکھتے ہیں لوٹتے انگاروں پر
تم نے کیوں کبک دری کو یہ چلن دکھلایا
آئے واللہ دل حیران میں کیا کچھ ارماں
اس نے آئینے کو تن تن کے جو تن دکھلایا
مرتے جیتے ہی رہے ہم تو اجی دم دم میں
نہ کمر اس نے دکھائی نہ دہن دکھلایا
یاد میں پھول سے گالوں کے سنبھالا دل کو
کبھی نسریں تو کبھی اس کو سمن دکھلایا
پھر ترا شور تبسم جو نمک ریز ہوا
پھر مرا تازہ مجھے زخم کہن دکھلایا
کل جو تھا وعدۂ وصل آج وہ فردا نکلا
دن قیامت کا تو اے وعدہ شکن دکھلایا
کیوں نہ میں خار بنوں چشم رقیباں میں نسیمؔ
پھول سے گال مجھے غنچہ دہن دکھلایا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |