آج پلکوں کو جاتے ہیں آنسو
آج پلکوں کو جاتے ہیں آنسو
الٹی گنگا بہاتے ہیں آنسو
آتش دل تو خاک بجھتی ہے
اور جی کو جلاتے ہیں آنسو
خون دل کم ہوا مگر جو مرے
آج تھم تھم کے آتے ہیں آنسو
جب تلک دیدہ گریہ ساماں ہو
دل میں کیا جوش کھاتے ہیں آنسو
گوکھرو پر تمہاری انگیا کے
کس کے یہ لہر کھاتے ہیں آنسو
تیری پازیب کے جو ہیں موتی
ان سے آنکھیں لڑاتے ہیں آنسو
شمع کی طرح اک لگن میں مرے
مصحفیؔ کب سماتے ہیں آنسو
فکر کر ان کی ورنہ مجلس میں
ابھی طوفاں لاتے ہیں آنسو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |