آدھا مزہ وصال کا پائے ہوئے تو ہوں
آدھا مزہ وصال کا پائے ہوئے تو ہوں
ننگا گلے سے تم کو لگائے ہوئے تو ہوں
گو لاکھ میں فراق میں کمزور ہو گیا
الفت کا بوجھ سر پر اٹھائے ہوئے تو ہوں
پورا پتا نہیں ہے کہ جاتے ہو کس جگہ
کچھ کچھ تمہارے بھید کو پائے ہوئے تو ہوں
تم پھر بھی کہہ رہے ہو کہ تسکیں نہیں ہوئی
حالانکہ سارا زور لگائے ہوئے تو ہوں
یہ کیا کہا کہ جان بچاتا ہے قتل سے
نطفہ حرام سر کو جھکائے ہوئے تو ہوں
دشمن کی چاپلوسی سے کچھ فائدہ نہیں
سالے کو بےوقوف بنائے ہوئے تو ہوں
کچھ کچھ وہ میرے قابو میں آئے ہوئے تو ہیں
کچھ کچھ میں ان کو داب میں لائے ہوئے تو ہوں
مانا کہ بومؔ بزم سخن میں مزہ نہیں
تھوڑا سا پھر بھی رنگ جمائے ہوئے تو ہوں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |