آراستگی بڑی جلا ہے
آراستگی بڑی جلا ہے
پتھر کی بغل میں آئنہ ہے
مجھ کو یہی آپ سے گلا ہے
پوچھا نہ کبھی کہ حال کیا ہے
اللہ رے حسن کی لگاوٹ
داؤد رقیب اور یا ہے
کھوٹے ہیں طلائی رنگ والے
اس سونے کو بارہا کسا ہے
بالوں کے گھٹا تلے ہیں جھالے
مینہ موتیوں کا برس رہا ہے
تقدیر میں آگ لگی گئی ہے
عالم سے جگر جلا بھنا ہے
پیری میں ہے حرف زندگی پر
جو قد خمیدہ ہے وہ لا ہے
پیتے ہیں شراب ما بدولت
ساقی بط مے نہیں ہما ہے
میں دوڑ رہا ہوں اس کے پیچھے
جو سائے سے اپنے بھاگتا ہے
بیمار ہوں خوب صورتوں کا
حسن یوسف مری دوا ہے
باریک کمر ہے کیا ہی اس کی
تلوار میں بال آ گیا ہے
بھوؤں پر جو دوپٹے کا ہے لچکا
پٹھا تلوار پر چرا ہے
کمرے کا کھلا ہے در سر راہ
معشوق بغل میں ہے یہ کیا ہے
کیوں ہوتے ہو بحرؔ طشت از بام
چلمن چھوڑوا دو سامنا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |