آرزو دل میں بنائے ہوئے گھر ہے بھی تو کیا

آرزو دل میں بنائے ہوئے گھر ہے بھی تو کیا
by مضطر خیرآبادی

آرزو دل میں بنائے ہوئے گھر ہے بھی تو کیا
اس سے کچھ کام بھی نکلے یہ اگر ہے بھی تو کیا

نہ وہ پوچھے نہ دوا دے نہ وہ دیکھے نہ وہ آئے
درد دل ہے بھی تو کیا درد جگر ہے بھی تو کیا

آپ سے مجھ کو محبت جو نہیں ہے نہ سہی
اور بقول آپ کے ہونے کو اگر ہے بھی تو کیا

دیر ہی کیا ہے حسینوں کی نگاہیں پھرتے
مجھ پہ دو دن کو عنایت کی نظر ہے بھی تو کیا

صبح تک کون جئے گا شب تنہائی میں
دل ناداں تجھے امید سحر ہے بھی تو کیا

میں بدستور جلوں گا یہ نہ ہوگی مضطرؔ
میری ساتھی شب غم شمع سحر ہے بھی تو کیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse