آشوب حسن کی بھی کوئی داستاں رہے
آشوب حسن کی بھی کوئی داستاں رہے
مٹنے کو یوں مٹیں کہ ابد تک نشاں رہے
طوف حرم میں یا سر کوئے بتاں رہے
اک برق اضطراب رہے ہم جہاں رہے
ان کی تجلیوں کا بھی کوئی نشاں رہے
ہر ذرہ میری خاک کا آتش بجاں رہے
کیا کیا ہیں درد عشق کی فتنہ طرازیاں
ہم التفات خاص سے بھی بدگماں رہے
میرے سرشک خوں میں ہے رنگینئ حیات
یا رب فضائے حسن ابد تک جواں رہے
میں رازدار حسن ہوں تم رازدار عشق
لیکن یہ امتیاز بھی کیوں درمیاں رہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |