Author:اصغر گونڈوی
اصغر گونڈوی (1884 - 1936) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- ذوق سرمستی کو محو روئے جاناں کر دیا
- یوں نہ مایوس ہو اے شورش ناکام ابھی
- یہ ننگ عاشقی ہے سود و حاصل دیکھنے والے
- یہ کیا کہا کہ غم عشق ناگوار ہوا
- یہ عشق نے دیکھا ہے یہ عقل سے پنہاں ہے
- وہ نغمہ بلبل رنگیں نوا اک بار ہو جائے
- تو ایک نام ہے مگر صدائے خواب کی طرح
- ترے جلووں کے آگے ہمت شرح و بیاں رکھ دی
- صرف اک سوز تو مجھ میں ہے مگر ساز نہیں
- شکوہ نہ چاہیئے کہ تقاضا نہ چاہیئے
- سامنے ان کے تڑپ کر اس طرح فریاد کی
- رقص مستی دیکھتے جوش تمنا دیکھتے
- پاتا نہیں جو لذت آہ سحر کو میں
- پاس ادب میں جوش تمنا لئے ہوئے
- نہ یہ شیشہ نہ یہ ساغر نہ یہ پیمانہ بنے
- نہ کھلے عقد ہائے ناز و نیاز
- موجوں کا عکس ہے خط جام شراب میں
- متاع زیست کیا ہم زیست کا حاصل سمجھتے ہیں
- مستی میں فروغ رخ جاناں نہیں دیکھا
- مجاز کیسا کہاں حقیقت ابھی تجھے کچھ خبر نہیں ہے
- مے بے رنگ کا سو رنگ سے رسوا ہونا
- کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے
- خدا جانے کہاں ہے اصغرؔ دیوانہ برسوں سے
- کون تھا اس کے ہوا خواہوں میں جو شامل نہ تھا
- جو نقش ہے ہستی کا دھوکا نظر آتا ہے
- جینے کا نہ کچھ ہوش نہ مرنے کی خبر ہے
- جان نشاط حسن کی دنیا کہیں جسے
- عشوؤں کی ہے نہ اس نگہ فتنہ زا کی ہے
- عشق ہے اک کیف پنہانی مگر رنجور ہے
- حسن کو وسعتیں جو دیں عشق کو حوصلہ دیا
- ہے دل ناکام عاشق میں تمہاری یاد بھی
- گم کر دیا ہے دید نے یوں سر بہ سر مجھے
- گرم تلاش و جستجو اب ہے تری نظر کہاں
- ایک ایسی بھی تجلی آج مے خانے میں ہے
- اک عالم حیرت ہے فنا ہے نہ بقا ہے
- اسرار عشق ہے دل مضطر لیے ہوئے
- عکس کس چیز کا آئینۂ حیرت میں نہیں
- آشوب حسن کی بھی کوئی داستاں رہے
- آلام روزگار کو آساں بنا دیا
Some or all works by this author are now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |