آنکھوں کا خدا ہی ہے یہ آنسو کی ہے گر موج
آنکھوں کا خدا ہی ہے یہ آنسو کی ہے گر موج
کشتی بچے کیوں کر جو رہے آٹھ پہر موج
اے بحر نہ تو اتنا امنڈ چل مرے آگے
رو رو کے ڈبا دوں گا کبھی آ گئی گر موج
پہنچا نہیں گر تیرا قدم تا لب دریا
ساحل سے پٹک سر کو ہے کیوں خاک بہ سر موج
گر عالم آب اس کا کمیں گاہ نہیں ہے
کیوں طائر بسمل کی طرح مارے ہے پر موج
اٹھتے نہیں ساحل کی مثال اپنے مکاں سے
دریا کی طرح مارتے ہیں اپنے ہی گھر موج
کیا پوچھتے ہو اشک کے دریا کا تلاطم
جاتی ہے نظر جس طرف آتی ہے نظر موج
گر نہیں ہے حضورؔ اوس کو ہوس دید کی اس کے
کیوں کھولے حبابوں سے ہے یوں دیدۂ تر موج
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |